Wednesday, July 29, 2015

لشکرِ جھنگوی کے سابق امیر ملک اسحاق سمیت 14 ہلاک

ملک اسحاق پر شیعہ اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کے درجنوں مقدمات قائم کیے گئے تھے اور وہ تقریباً پندرہ سال جیل میں رہے
پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں حکام کے مطابق بدھ کی صبح پولیس کی ایک کارروائی کے دوران کالعدم شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی کے بانی و سابق امیر ملک اسحاق سمیت 14 شدت پسند ہلاک ہوگئے ہیں۔
اس کارروائی میں حصہ لینے والے ایک پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ شدت پسندی کے متعدد واقعات کی تفتیش کے دوران ملنے والے شواہد کی بنا پر ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کو شاہ ولی کے قریب جنگلوں میں ایک مکان پر لے جایا جا رہا تھا جہاں انھوں نے اسلحہ موجود ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔
اہلکار نے بتایا کہ ملزمان کی جائے وقوع سے واپسی کے دوران وہاں پہلے سے موجود ان کے ساتھیوں نے ملک اسحاق اور دوسرے ملزمان کو چھڑانے کے لیے پولیس اہلکاروں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ میں ملک اسحاق اور اس کے دو بیٹوں عثمان اور حق نواز سمیت 14 افراد ہلاک ہوگئے۔
اہلکار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کلعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کے ترجمان قاری غلام رسول بھی شامل ہیں جبکہ دیگر ملزمان میں سے چند افراد کا تعلق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے تھا اور وہ شدت پسندی کے متعدد مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے۔
مقامی پولیس کے مطابق کچھ ملزمان کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا جبکہ فائرنگ کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد کے لیے مقامی ہسپتال میں داخل کروادیا گیا ہے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے دوران کچھ اسلحہ اور شدت پسندی میں استعمال ہونے والہ مواد بھی ملا ہے۔
یاد رہے کہ ملک اسحاق گذشتہ آٹھ ماہ سے خدشہِ نقصِ امن کے تحت ملتان جیل میں نظربند تھے۔ چند روز قبل ملک اسحاق اور اس کے دو بیٹوں سمیت پانچ افراد کو آٹھ افراد کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جن میں اہلِ تشیع کے لوگ بھی شامل تھے۔
محکمہِ انسدادِ دہشتگردی کے اہلکار کے مطابق شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں لشکرِ جھنگوی کے کارکن تہذیب حیدر اور محمد زبیر نامی ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا جنھوں نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ 16 افراد پر مبنی ایک خصوصی گروہ تشکیل دیا گیا ہے جس کو فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری سونپی گئی۔
خیال رہے کہ ملک اسحاق پر شیعہ اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کے درجنوں مقدمات قائم کیے گئے تھے اور وہ تقریباً 15 سال جیل میں رہے۔
وہ ابتدا میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے رکن تھے لیکن اپنی مبینہ متشدد پالیسی کی بنیاد پر سپاہ صحابہ سے اختلاف کے بعد ایک نئی تنظیم لشکر جھنگوی کی بنیاد رکھی اور اس کے بانی امیر بنے۔ یہ تنظیم بھی کالعدم قرار دے دی گئی تھی۔
سنہ 2012 میں سپاہ صحابہ میں قیادت کے معاملے پر اختلافات ختم ہوگئے تھے اور تنظیم کے موجودہ سربراہ احمد لدھیانوی اور ملک اسحاق میں صلح کے بعد انھیں تنظیم کا نائب صدر بنا دیا گیا تھا۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے انھیں ایک ’عالمی دہشتگرد‘ قرار دیا تھا اور ان کی تنظیم لشکرِ جھنگوی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

Saturday, July 18, 2015

پاکستان کی خاطر چین اور بھارت میں ٹکر


پچھلے ماہ پاکستان کے ضمن میں چین اور بھارت کی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اچھی خاصی جھڑپ ہوئی اوردونوں طاقتوں نے ایک دوسرے پر سفارتی حملے کیے۔
پہلا ٹکراؤ سلامتی کونسل کی سینکشنز کمیٹی(Sanctions Committee ) میں دیکھنے کو ملا۔ یہ کمیٹی مختلف وجوہ کی بنا پر رکن ممالک پر معاشی و عسکری پابندیاں لگاتی ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندے نے اس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا جو 25 جون کو منعقد ہوا۔
بھارت نے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی کہ واقعہ 26/11 میں ملوث (بقول بھارتی حکومت) ذکی الرحمن لکھوی کو رہا کرنے پر پاکستان سے جواب طلب کیا جائے۔ لیکن چینی نمائندے نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا اور کہا کہ معاملے کے متعلق بھارتی حکومت نے ضروری معلومات پیش نہیں کیں۔ یوں بھارت کو پاکستان کے خلاف عملی قدم اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا۔
واضح رہے، دسمبر 2014ء سے بھارتی حکومت اقوام متحدہ کی متعلقہ کمیٹیوں میں پاکستانی ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف قراردادیں پیش کررہی ہے، مگر چین کے ویٹوؤں نے کسی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہننے دیا۔ یہ حقیقت شاہد ہے کہ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے چین اپنے دیرینہ دوست،پاکستان کی بھر پور مدد و حمایت کررہا ہے۔
یہی سچائی مدنظر رکھ کر مودی حکومت غصے سے پیچ و تاب کھارہی ہے۔ حالیہ سفارتی شکست پر تو بھارتی حکمران طبقے کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ چناں چہ بتایا جاتا ہے، وزیراعظم نریندر مودی نے خود اس معاملے پر چینی حکومت سے بات کی۔لگتا ہے، چین نے نریندر مودی کو گول مول جواب دے کر ٹرخا دیا اور کہا کہ جاؤ میاں، اپنی عیاریاں کسی اور کو دکھاؤ۔ اسی لیے بھارتی حکومت نے بھی چین پر جوابی سفارتی حملہ کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ یہ موقع اسے جلد میسر آگیا۔
اقوام متحدہ جس ملک، ادارے یا تنظیم پر بہ سلسلہ دہشت گردی پابندیاں لگائے، انہیں عملی شکل دینے کا کام اس کی ایک تنظیم،فناشل ایکشن ٹاسک فورس انجام دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کا ایک ذیلی ادارہ ایشیا پیسفک گروپ بھی ہے۔ پاکستان بھی اس گروپ کا رکن ہے۔
29 جون کو آسٹریلوی شہر، برسبین میں فناشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں بھارت نے امریکا اور آسٹریلیا کی پشت پناہی سے یہ قرارداد پیش کی کہ پاکستان حافظ محمد سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور داؤد ابراہیم جیسے ’’دہشت گردوں‘‘ کی سرپرستی کررہا ہے۔ لہٰذا اس کے مالیاتی امور پر نظر رکھی جائے۔
اجلاس میں چینی نمائندے نے بھر پور کوشش کی کہ یہ قرارداد منظور نہ ہو، تاہم انہیں ناکامی ہوئی۔ بھارت نے امریکا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت سے قرارداد منظور کرالی۔ اب ٹاسک فورس اپنے ایشیا پیسفک گروپ کے ذریعے پاکستان کے مالیاتی امور پر نظر رکھتے ہوئے دیکھے گی کہ ’’دہشت گردوں‘‘ کو تو کسی قسم کا سرمایہ نہیں مل رہا۔
22 مئی کو کراچی میں چینی آبدوز کی آمد نے بھی بھارت اور چین کی لفظی جنگ کرادی۔ یوان کلاس کی یہ آبدوز تارپیڈو اور جہاز شکن میزائلوں سے لیس ہے۔ پاکستان ایسی ہی 8 آبدوزیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چینی بحریہ طویل عرصہ اپنے پانیوں تک ہی محدود رہی۔ مگر اب وہ دیگر عالمی طاقتوں کے مانند دیگر سمندروں میں بھی پہنچ رہی ہے۔ چینی آبدوزیں دو بار کولمبو (سری لنکا) کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوچکیں۔ اس پر بھارت نے خاصا پر زور احتجاج کیا تھا۔ وجہ یہی کہ وہ خود کو بحرہند کا چودھری سمجھتا ہے۔
مگر چینی حکومت نے بھارتیوں کے احتجاج کو بالکل اہمیت نہ دی اور اب اپنی آبدوز بھارتی پانیوں کے نہایت قریب سے گزارتے ہوئے کراچی تک پہنچا دی۔ اس پر بھارتی حکمران طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بھارتی بحریہ کے چیف، ایڈمرل روبن دھوان نے بیان دیا ’’ہم بحرہند میں چینی آبدوزوں کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کیا چیلنج رکھتی ہیں۔‘‘
یاد رہے، اس بحری جنگ کا آغاز بھارت نے کیا جب چند برس قبل بھارتیوں نے اپنے جنگی و سول بحری جہاز بحیرہ جنوبی چین بھجوادیے۔ اس بحیرہ میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں جن پر چین اور تائیوان، ویت نام، فلپائن وغیرہ کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔ بھارتی جہازوں کی موجودگی پر چین نے اعتراض کیا اور پھر جواباً اپنی آبدوزیں بحرہند میں بھجوانے لگا۔
بھارت نے کراچی میں چینی آبدوز پہنچنے پر تشویش ظاہر کی،تو چین کے ماہر عسکریات، زیاؤ پی (Zhao Yi) نے اسے منہ توڑ جواب دیا۔ زیاؤ پی چین کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا ’’بحرہند پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی وہ بھارت کا پچھواڑہ ہے۔ اس علاقے میں ہر کوئی آجا سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے، امریکی ماہرین عسکریات کا دعویٰ ہے، اگلے پچیس تیس برس میں بحرہند میں بھارتی اور چینی بحریاؤں کے مابین زبردست جنگیں ہوسکتی ہیں۔ اوریہ حقیقت ہے، دنیا میں چین اور بھارت کے باہمی تعلقات سب سے زیادہ عجیب و غریب ہیں۔ دونوں ممالک سنگین سرحدی تنازعات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پھر بھارتی پاک چین دوستی کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کی باہمی تجارت 71 ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ چین اور بھارت اسے 100 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس باہمی تجارت کا جھکاؤ چین کی طرف بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال چینی کمپنیوں نے 60 ارب ڈالر کا مال بھارت بھجوایا۔ جبکہ بھارتی صرف 12 ارب ڈالر کا سامان ہی چین بھجوا سکے۔ بھارت میں سستے چینی سامان کی کثرت سے کئی بھارتی کمپنیاں بند ہوچکیں۔ نیز بھارت میں چینی مال کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت اس وقت گائے کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ برآمد بڑھانے اور ڈالر کمانے کے لیے ہی مودی حکومت چاہتی ہے کہ بھارت میں گائے ماتا کے ذبیح پر پابندی لگ جائے۔ ریاست مہاراشٹر میں اس پابندی کا نفاذ ہوچکا۔

پاکستان دہشت گردی کو شکست دے کر آگے بڑھے گا، ترجمان پاک فوج


راولپنڈی: ترجمان پاک فوج میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو شکست دے کر آگے بڑھے گا۔
عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں ترجمان پاک فوج میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ملک میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا مشن مکمل ہونے تک جنگ جاری رہے گی، پاکستان دہشت گردی کو شکست دے کر آگے بڑھے گا۔

مقبوضہ کشمیرمیں عید کے موقع پرایک بارپھرپاکستانی پرچم لہرادیئے گئے


سری نگر: مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں میں بھارتی قابض فوج کے خلاف احتجاجی ریلیوں میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم لہرادیئے گئے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے  حریت رہنماؤں کونمازعید کی ادائیگی سے روکنے اورانہیں حراست میں لیے جانے کے خلاف سری نگر میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکا نے سری نگر کی مرکزی عیدگاہ کے باہر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے پاکستان کے حق میں نعرے بازی کی ۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کر نے کے لیے آنسو گیس سے شیلنگ بھی کی۔ اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی جس میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ،بارہ مولہ اور بڈگام سمیت  دیگر علاقوں میں بھی آزادی کے متوالوں نے قابض فوج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاکستانی پرچم لہرائے اور فضا جیوے جیوے پاکستان اور ہم کیا چاہتے آزادی  کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔
واضح رہے کہ بھارتی قابض فوج نے ہر سال کی طرح اس سال بھی حریت رہنماؤں کو نماز عید کی ادائیگی سے روک کر انہیں گھروں میں نظر بند کردیاہے۔

بھارت کی جنگی تیاریاں


یہ جنوری 1980ء کی بات ہے‘ اندرا گاندھی دوبارہ وزیراعظم بھارت منتخب ہوئیں۔ اسی سال انہوں نے بھارتی جرنیلوں کے ساتھ مل کر نئی عسکری حکمت عملی تشکیل دی۔ اس حکمت عملی کی رو سے طے پایا کہ پاکستان کے خلاف ’’رکاوٹی مزاحمت‘‘(dissuasive deterrence) ہیئت اختیار کی جائے ۔جبکہ چین کے خلاف ’’رکاوٹی دفاع‘‘(dissuasive defence) والی عسکری حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔
پینتیس سال قبل بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت اس امر پہ متفق تھی کہ چین کی طرف سے حملوں کا خطرہ بہت کم ہے تاہم وہ مستقبل میں چیلنج بن سکتا ہے۔ لہٰذا بھارتی قیادت نے فیصلہ کیا‘ چین کے خطرہ بننے تک پاکستان کو سیاسی ‘ معاشی‘ عسکری اور سفارتی معنی میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے تاکہ وہ کمزور ہو کر بھارت کا مقابلہ نہ کر سکے۔ (یوں تب بھارت کے سامنے صرف چین مد مقابل رہ جاتا) یہ کام را کے ایجنٹوں اور پاکستانی غداروں کی مدد سے انجام دینے کا فیصلہ ہوا۔
اس زمانے میں بھارتی عسکری قیادت کا خیال تھا کہ جب بھی پاکستانیوں سے جنگ چھڑی‘ ان کے قلب میں تیزی سے پہنچ کر پاکستان کو دو حصّوں میں چیر دیا جائے گا۔ یوں پاک افواج مقابلے کی سکت نہ پا کر شکست تسلیم کر یں گی۔ مگر 1985ء تک بھارتی حکمرانوں پر منکشف ہو گیا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا۔ اس انکشاف نے بھارتی سیاسی و عسکری کی درج بالا حکمت عملی کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ وجہ یہی کہ ایٹم بم ہونے کے باعث اب پاکستان منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں آ گیا تھا۔
عسکری طاقت میں توازن آنے کے باعث بھارتی حکمرانوں نے ’’رکاوٹی مزاحمت‘‘ کو خیر باد کہا اور پاکستان کے معاملے میں بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ اس حکمت عملی میں تھوڑی سی تبدیلی 2012ء میں آئی جب بھارتی سیاسی و عسکری قیادت نے ایک پندرہ سالہ توسیعی منصوبہ ’’ایل آئی ٹی پی پی‘‘ (Long Term Integrated Perspective Plan 2012 – 2027) تشکیل دیا۔ اس منصوبے کا مقصد بھارتی افواج کی تعداد بڑھانا اور اسے جدیدجنگی سازو سامان سے لیس کرنا ہے۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یوں بھارتی افواج کو بیک وقت دو محاذوں …چین اور پاکستان پر لڑنے کے لیے خاص طور پہ تیار کیا جا رہا ہے۔
درج بالا منصوبہ انجام دینے کے لیے ہی 2012ء اور 2013ء میں بھارت کے دفاعی بجٹ میں یک دم اربوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ 2014ء میں جارح پسند سیاسی جماعت‘ بی جے پی برسراقتدار آئی‘ تو اس نے نئی عسکری حکمت عملی کی بنیاد رکھی۔ یہ ’’جارحانہ دفاع‘‘ کہلاتی ہے جس کا دوسرا نام ’’مودی دوال ڈاکٹرائن ‘‘ بھی ہے۔بھارتی حکمران اس حکمت عملی کی مدد سے مملکتِ پاکستان کے خلاف خفیہ و عیاں حملے کر کے اسے زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری سمت وہ اپنی افواج کو نہایت طاقت ور بنا رہے ہیں۔ آج بھارت عالمی مارکیٹوں سے اسلحہ خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ۔اسی باعث اس کا دفاعی بجٹ ’’40کھرب روپے‘‘ تک پہنچ چکا جبکہ پاکستان کا ’’7 کھرب 81 ارب روپے‘‘ والا بجٹ اس کے سامنے معمولی نظر آتا ہے۔
بھارت کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ چین کی زبردست عسکری طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاہم حقائق افشا کرتے ہیں کہ ان تیاریوں کا نشانہ پاکستان ہے‘ چین نہیں۔
بھارتی بری فوج فی الوقت چھ ایریا کمانڈز(Area Command ) رکھتی ہے ۔ہر کمانڈ دو تا تین کور فوج پر مشتمل ہے ۔ان میں سے پانچ ایریا کمانڈز… سنٹرل کمانڈ‘ نارتھرن کمانڈ‘ ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ‘ ساؤتھرن کمانڈ اور ویسٹرن کمانڈ کا براہ راست نشانہ پاکستان ہے۔ چھٹی ایسٹرن کمانڈ چین کے مقابلے پر مامور ہے۔ مگر بنگلہ دیش اور برما کی ذمہ داریاں بھی اس کے کاندھوں پر رکھی ہیں۔
اسی طرح بھارتی بری فوج کی ’’تیرہ‘‘ کور ہیں۔ ان میں سے دس کور دفاعی نوعیت رکھتی ہیں۔ تین اسٹرائک یا حملہ آور کور ہیں(کور I‘ کورII اور کورXXI) اور یہ تینوں پاکستان کے خلاف کھڑی کی گئیں ۔ پہلی کور کا ہیڈ کوارٹر متھرا‘ دوسری کا انبالہ اور تیسری کا بھوپال میں ہے۔ اسی طرح دس دفاعی کور میں سے’’چھ‘‘ براہ راست پاکستان پر حملہ کر سکتی ہیں۔
بھارتی فضائیہ پانچ ایریا کمانڈ رکھتی ہے جن میں 60 سے زائد فضائی اڈے واقع ہیں ۔ ان میں تین… ویسٹرن ائرکمانڈ‘ سنٹرل ائرکمانڈ اور ساؤتھرن ائر کمانڈ پاکستان سے مقابلے کی خاطر ہی بنائی گئیں۔ ان تینوں ائر کمانڈ میں بھارتی فضائیہ کے 35 یعنی آدھے سے زیادہ فضائی اڈے واقع ہیں۔ نیز بھارتیوں کے بیشتر جدید ترین طیارے مثلاً سخوئی ایس یو۔ 30ایم آئی‘ ہال تیجاس‘ مگ 29‘ اور میراج2000انہی اڈوں پر رکھے گئے ہیں۔
بھارتی بحریہ کی تین ایریا کمانڈز ہیں۔ ان میں بہ لحاظ نفری و اسلحہ سب سے بڑی ویسٹرن نیول کمانڈ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر ممبئی میں ہے۔ بھارتی بحریہ کے بیشتر جنگی بحری جہاز اسی کمانڈ میں ہیں جو پاک بحریہ کا مقابلہ کرنے کی خاطر تشکیل دی گئی۔
درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ خصوصاً موجودہ بھارتی حکمران تمام تر جنگی تیاریاں اسی لیے کر رہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو نیچا د کھایا جا سکے۔ لیکن بھارتی حکمران بھول جاتے ہیں کہ جنگ میں جدید ترین اور وافر اسلحہ کام نہیں آتا۔ سب سے زیادہ ضروری فوج کا ’’مائنڈ سیٹ‘‘ یا ذہنی ساخت ہے۔
پاک افواج نہ استعماری قوت ہیں اور نہ ہی دوسروں پر دھونس جمانا چاہتی ہیں۔ ان کی ذہنی ساخت یہ ہے کہ ہر قیمت پر مادر وطن کا دفاع کیا جائے۔ گویا وہ مثبت جذبہ رکھتے ہیں۔ جبکہ بھارتی حکمران استعماری عزائم رکھتے اور خصوصاً جنوبی ایشیاء کے آقا بننا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی افواج اپنے حکمرانوں کی اس شرانگیز اور منفی ذہنی ساخت پر ڈھل سکیں گی یا نہیں!
عسکری تاریخ سے عیاں ہے، ماضی میں کئی بار مٹھی بھر فوج اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن کو شکست دے چکیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ مثبت مقصد کے لیے لڑیں‘ جبکہ حملہ آور مکروہ گھناؤنے عزائم رکھتے تھے۔ ایک مشہور قول ہے:
’’لڑنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لو کہ آخر تم کس مقصد کی خاطر لڑ رہے ہو۔‘

Tuesday, July 14, 2015

بنگلہ دیش: چوری کے الزام میں 13 سالہ لڑکا تشدد سے ہلاک -



بنگلہ دیش میں ہزاروں افراد ایک نو عمر لڑکے کو تشدد کر کے ہلاک کرنے اور اس کی ویڈیو بنانے والے گروپ سے انصاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں کچھ افراد کو ایک 13 سالہ لڑکے کو تشدد کر کے جان سے مارتے ہوئے دکھایا گیا۔
ان افراد نے اس لڑکے پر بنگلہ دیش کے شمال مشرقی شہر سہلٹ میں ایک بائسیکل رکشہ چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
پولیس نے اس واقعہ میں ملوث تین افراد کو حراست میں لے لیا ہے جس میں وہ مشتبہ شخص بھی شامل ہے جو اس حملے کے بعد سعودی عرب فرار ہو گیا تھا۔
بنگلہ دیش میں مشتبہ چوروں کو اکثر سر عام تشدد کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
بی بی سی کے جنوبی ایشیا کے مدیر کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو میں ایک بچے پر وحشیانہ طریقے سے تشدد کی وجہ سے لوگوں میں بہت غصہ پایا جاتا ہے جس کے ردِ عمل میں پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقیات کے لیے ایک سپیشل سکواڈ تشکیل دیا ہے۔
ایک حملہ آور شخص نے بدھ کو اپنے موبائل فون پر اس واقعہ کی ویڈیو بنائی جس میں لڑکے کو لوہے کے راڈ سے تشدد کرتے دکھایا گیا ہے۔
اس ویڈیو میں حملہ آوروں کو اس لڑکے پر ہنستے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور وہ اسے بتا رہے ہیں کہ وہ اس کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کریں گے۔
بنگلہ دیش کے روزنامہ ’ڈیلی سٹار‘ کے مطابق متاثرہ لڑکا اپنی مدد کے لیے چیخ و پکار اور اپنی جانے بچانے کی بھیک مانگ رہا تھا۔
اخبار کے مطابق حملہ آور لڑکے کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو تشدد کی جگہ سے دور لے گئے تاہم مقامی افراد نے ان کا پیچھا کر کے اس واقعے کی نشاندہی کی۔
اس واقعے میں ملوث تین افراد پر مشتمل گروہ فرار ہو گیا تاہم ان میں سے ایک شخص پکڑا گیا اور اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
پولیس نے بعد میں دوسرے شخص کو حراست میں لے لیا جبکہ تیسرے مشتبہ کو سعودی عرب سے گرفتار کیا گیا۔
بنگلہ دیش نیوز 24 ڈاٹ کام نے وزیرِ داخلہ اسد الزمان خان کمال کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے اس واقعے کو بدقسمت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث ایک شخص کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ دوسرے کوگرفتار کر لیا گیا ہے اور باقی افراد کو بھی بہت جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق 13 سالہ لڑکے سمیع اسلام کی موت برین ہیمریج کی وجہ سے ہوئی اس کے جسم پر 60 سے زائد زخموں کے نشان تھے۔

کویت خود کش حملہ: 3 پاکستانیوں سمیت 29 پر فرد جرم عائد


کویت نے گزشتہ ماہ ایک مسجد پر ہونے والے خود کش حملے کے جرم میں 29 افراد پر فرد جرم عائد کردی ہے جس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی اور جس میں 26 افراد شہید جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
سرکاری کے یو این اے نیوز ایجنسی کے مطابق فرد جرم عائد کیے جانے والے افراد میں سات افراد کا تعلق کویت، پانچ سعودی عرب اور تین کا پاکستان سے ہے جبکہ ان میں 13 بدو بھی شامل ہیں جن کی کوئی ریاست نہیں۔
گرفتار افراد میں سے 24 کو کویت میں رکھا گیا ہے جبکہ دیگر پانچ کی غیر حاضری میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
دولت اسلامیہ سے منسلک ایک گروپ نے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں رواں سال مئی میں مسجد جامع الصادقؑ کو ہدف بنایا گیا تھا۔
پیر کے روز کویتی کابینہ نے مستقل بنیادوں پر ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ ہے۔

پانچ کتابوں کا مصنف ایک موچی


منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے۔
فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے روڈالا کے مین بازار میں سڑک کنارے بیٹھا منور شکیل پچھلی 3 دہائیوں سے دیہاتیوں کے پھٹے پرانے جوتے مرمت کرنے میں مصروف ہے۔
لیکن حالیہ برسوں میں منور کی عارضی دکان پر جوتے مرمت کروانے والے گاہکوں سے زیادہ ان کی تلخ اور شریں حقیقتوں پر مبنی شاعری سننے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔
منور پنجابی شاعری کی 5 کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنی شاعری کی وجہ سے شہر کے مضافاتی علاقوں کی رہتل اور لوگوں کی زندگیوں کی حقیقتوں کا ترجمان مانے جاتے ہیں۔
1969ء میں پیدا ہونے والے منور شکیل نے ہوش سے پہلے ہی اپنے باپ کو کھو دینے اور رسمی تعلیم سے یکسر محروم رہنے کے باوجود 13 سال کی کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کی پہلی کتاب 'سوچ سمندر' 2004ء میں منظرِ عام پر آئی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خاندانی موچی ہیں۔
"میں سارا دن جوتوں کی مرمت اور صبح سویرے قصبے کی دکانوں پر اخبار فروشی کر کے ڈھائی سو سے 3 سو روپے کماتا ہوں جن میں سے روزانہ 10 روپے اپنی کتابیں شائع کروانے کے لیے جمع کرتا رہتا ہوں"۔
منور کی دوسری کتاب 'پردیس دی سنگت' 2005ء، تیسری کتاب 'صدیاں دے بھیت' 2009ء، چوتھی کتاب 'جھورا دھپ گواچی دا' 2011ء اور پانچویں 'آکھاں مٹی ہو گیئاں' 2013ء میں شائع ہوئی۔
ان کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابیں ایوارڈ یافتہ ہیں۔
وہ رویل ادبی اکیڈمی جڑانوالہ اور پنجابی تنظیم نقیبی کاروان ادب کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ آشنائے ساندل بار، پاکستان رائٹرز گلڈ، اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے اب تک کئی ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔

منور جوتوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ اخبار فروشی بھی کرتے ہیں۔
اپنی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مختلف طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے میں نچلے طبقے کے لوگوں کو درمیانے اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی طرف سے روز مرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کمزور لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔
"میں اپنی شاعری کے ذریعے نچلے طبقے کی آواز بننا چاہتا ہوں اور جو باتیں براہ راست نہیں کی جا سکتیں، انہیں اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔"
اینوں کنے پانی دِتا، اینوں کنے بویا اے
پتھر دے جو سینے اتے، بوٹا اگیا ہویا اے
انہوں نے بتایا کہ "بچپن میں میری خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر نام کماؤں لیکن ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی والد کی وفات اور مالی وسائل کی کمی کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو میں نے خود کتابیں خرید کر مطالعہ شروع کیا اور اب کام سے واپس جا کر 3 سے 4 گھنٹے کتاب نہ پڑھوں تو نیند نہیں آتی۔"
وہ کہتے ہیں کہ اپنی ماں بولی پنجابی اور ان کا تعلق وہی ہے جو ایک بیٹے کا اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے۔
"پنجابی پنجاب میں رہنے والے لوگوں کی مادری زبان ہے اور یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ انہیں اس زبان میں تعلیم دی جائے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پنجابی سمیت تمام علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کرے"۔
ان کا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لیے لازمی ہے کہ اس کے دل میں انسانیت کے لیے درد ہو جسے محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے الفاظ کو شاعری میں ترتیب دے سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی 112 غزلوں پر مشتمل چھٹی کتاب 'تانگھاں' رواں سال کے آخر تک شائع ہو جائے گی۔
"محنت میں عظمت ہوتی ہے۔ مجھے جوتے مرمت کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔"
منور شکیل کے ادبی استاد غلام مصطفیٰ آزاد نقیبی کہتے ہیں کہ منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے جو عشق، صحبت حسن، زلف، اور رخسار وغیرہ کے قصوں سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی ضروریات، خواہشات اور مشکلات سے نتھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مضافات میں رہنے والے لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ 

This is much balanced analysis of ‪#‎IranDeal‬ with world super powers.


The Iran deal is done. It’s a historic moment. But as important as it is to defang Iran’s nuclear threat, the bigger story is what the deal means for Iran’s new standing in a crumbling geopolitical order. Three changes will matter most.
First, the competition between Shia Iran and Sunni Saudi Arabia will heat up, and the balance of power will tip toward Tehran. Saudi Arabia is now pumping the most oil since 1980, but an unsanctioned Iran will cut into Saudi market share. Iran is the holder of the world's fourth-largest proven crude oil reserves and second-largest natural gas reserves, and will soon bring 1 million barrels a day back to the market. Meanwhile, proxy fights in Iraq, Yemen, Syria, and elsewhere will intensify. As the U.S. and Europe look to reduce their presence in the region, the escalation of proxy wars between Saudi Arabia and Iran will heighten the risk of direct conflict.
Next, Iran will open for business. The world will trade again with Iran’s $420 billion economy. Trade with the EU could expand as much as 400 percent, from $8.3 billion last year. Economic benefits will spill across the Gulf. Dubai will become a launch pad for foreign investment in Iran. And the investors are coming. Iran is not just another Middle Eastern petro-state; it offers investors a diversified economy with an established capital market. Its population of 80 million, the second largest in the Middle East, promises consumer demand across sectors as varied as travel and logistics to pharmaceuticals and consumer products. By some estimates, the nuclear deal could accelerate growth in Iran to 8 percent over the next three years and motivate the potential return of hundreds of thousands of highly talented Iranians.
Finally, Iran will lead the fight against ISIS. Obama is in no position to put U.S. boots on the ground, but the more battles ISIS wins in the Middle East, the more of a problem it will become internationally. Washington needs someone with the will and resources to deal ISIS a strong blow. And that’s Iran. Though economic sanctions and a global arms embargo have limited the sophistication of Iran’s military powers (Iran spends a fifth as much as Saudi Arabia on boosting its military assets), the expansion of Iranian influence and economic capabilities will pave the way for greater defense leadership in the Middle East. Iraqi Shia militias, backed by Iran, will offer a desperately-needed counter to ISIS.
Will Iran cheat on the deal? Yes. The U.S. and Iran aren’t about to start trusting one other, much less become fast friends. But in the world created by the deal, Iran starts to matter much more than Saudi Arabia and other old-guard U.S. allies.
Today’s deal isn’t the end of the story. It’s only the end of the first chapter.

پکچر ابھی باقی ہے دوست۔۔۔

جون میں شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کے حتمی دور میں کڑی سودے بازی ہوئی
ایران کا جوہری پروگرام 58 برس پرانا ہے۔ 1957 میں امریکہ کی آئزن ہاور انتظامیہ نے ایٹم برائے امن کی اسکیم کے تحت پاکستان اور ایران سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کو پانچ میگاواٹ قوت کے ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیے جن کے لیے افزودہ مواد بھی امریکہ دیتا تھا۔

1968 میں جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے کے ابتدائی دستخط کنندگان میں ایران بھی شامل تھا۔
سمجھوتے کے فریقوں کو پابند کیا گیا کہ ان کی ایٹمی سرگرمیاں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے قوانین و نگرانی کے تابع ہوں گی۔(اسرائیل، پاکستان اور بھارت نے اس سمجھوتے پر آج تک دستخط نہیں کیے)۔
شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے 1974 میں اعلان کیا کہ چونکہ تیل ایک دن ختم ہو جائے گا لہٰذا پیش بندی کے طور پر ایران 1994 تک 23 ہزار میگا واٹ ایٹمی بجلی پیدا کرے گا۔ آٹھ امریکی کمپنیوں سمیت درجن بھر مغربی اداروں سے ٹینڈر طلب کیے گئے۔ ایک جرمن کمپنی سیمنز نے بوشہر میں 1200 میگاواٹ کے پہلے پلانٹ کی تعمیر شروع بھی کر دی۔
مئی 1974 میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ ایک ماہ بعد رضا شاہ پہلوی نے فرانسیسی اخبار لی ماند کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران دنیا کی توقعات سے کہیں پہلے خود کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کر لے گا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایران امریکہ کا علاقائی پولیس مین اور خطے کی واحد غیر اعلانیہ جوہری قوت اسرائیل کا سفارتی ساجھے دار تھا۔
جون 1974 میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک اندرونی یادداشت میں کہا گیا کہ اگر شاہ اپنے جوہری بجلی گھروں کے عظیم الشان منصوبے کو مکمل کر لیتا ہے تو اتنا استعمال شدہ پلوٹونیم پیدا ہوگا جو چھ سو سے سات سو ہتھیاروں کے لیے کافی ہو۔
شاہ کو ایٹمی ہتھیاروں کے خیال سے دور اور سویلیئن ایٹمی راستے پر رکھنے کے لیے امریکیوں نے تجویز پیش کی کہ اگر شاہ ایٹمی مواد کی ری پروسسینگ ملک کے اندر کرنا پسند کریں تو پھر امریکہ کے ساتھ ایک مشترکہ ری پروسینگ پلانٹ لگا لیں یا پھر امریکہ سے اپنے جوہری پلانٹس کے لیے ایندھن اس شرط پہ لے لیں کہ استعمال شدہ ایندھن امریکہ کو واپس کر دیا جائے گا۔
1978 میں صدر جمی کارٹر کے دورۂ تہران کے موقعے پر اس بارے میں جوہری تعاون کا ایک جامع سمجھوتہ بھی اصولاً طے پا گیا مگر حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ شاہ کی حکومت بھی نہ رہی اور ایک نیا ایران نمودار ہو گیا اور کارٹر کو بھی لے ڈوبا۔
آیت اللہ خمینی نے تہران میں اترتے ہی امریکہ کو شیطانِ بزرگ قرار دیا اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرے اور استعمال کو حرام قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کیا ( بعد ازاں 2005 میں علی خامنہ ای نے اس فتوے کی تجدید کی)۔ چنانچہ ’شیطانِ بزرگ‘ نے تہران یونیورسٹی کے ریسرچ ری ایکٹر کے لیے افزودہ یورینیئم کی فراہمی روک دی۔
صدر احمدی نژاد اور امریکی صدر بش کے بے لچک رویوں نے کوئی بریک تھرو نہیں ہونے دیا تھا

امریکی کمپنیوں نے جوہری بجلی گھروں کے منصوبوں میں شرکت سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ فرانس نے اپنی ایک ری پروسیسنگ کمپنی میں سابق شاہی حکومت کے دس فیصد شیئرز منجمد کر دیے اور جرمن کمپنی سیمنز نے امریکی دباؤ پر بوشہر جوہری بجلی گھر کا تعمیراتی کام بیچ میں چھوڑ دیا۔ بعد ازاں عراق ایران جنگ کے دوران عراقی فضائیہ نے بوشہر پلانٹ کے ڈھانچے پر بمباری بھی کی۔
1984 میں ایران نے اعلان کیا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی سمجھوتے (این پی ٹی) کی حدود میں رہتے ہوئے پرامن جوہری سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ ارجنٹینا، چین اور سوویت یونین سےغیر فوجی جوہری تعاون کے سمجھوتے ہوئے۔
ایک روسی کمپنی کو بوشہر بجلی گھر کی تعمیر مکمل کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ ایران نے یہ موقف اپنائے رکھا کہ اسے این پی ٹی کے تحت غیر فوجی مقاصد کے لیے یورینیئم کی افزودگی کا حق حاصل ہے۔
1998 میں جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھما کے کیے تو پانچ روز بعد ایرانی وزیرِ خارجہ کمال خرازی نے اسلام آباد پہنچ کر نواز شریف حکومت کو اس کارنامے پر مبارکباد دی۔
تب تک ایک راز امریکیوں کے علم میں آ چکا تھا مگر نواز شریف حکومت اس راز سے بےخبر تھی، یعنی ڈاکٹر قدیر نیٹ ورک کے توسط سے ایران کو یورینیئم کی افزودگی کے لیے آئی آر ون ماڈل کے سینٹری فیوجز اور جوہری ہتھیاروں کی چینی ڈرائنگز کی فراہمی کا راز۔
آئی اے ای اے نے سنہ 2003 میں اپنی رپورٹ میں پہلی دفعہ انکشاف کیا کہ نطنز کے جوہری مرکز میں فوجی استعمال کے انتہائی افزودہ یورینیئم کے آثار ملے ہیں۔


اسرائیل اور سعودی عرب اس سمجھوتے سے خوش نہیں ہیں
ایران کا موقف تھا کہ یہ آثار استعمال شدہ پاکستانی سینٹری فیوجز کے ہیں اور ایران نے عدم اعتماد کی فضا کے پیشِ نظر عارضی طور پر یورینیئم کی افزودگی کا عمل بھی روک دیا۔ تاہم آئی ای اے بضد رہی کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
چنانچہ 2006 میں ایران کا کیس آئی اے ای اے کے بورڈ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا اور یوں ایران پر مرحلہ وار ایٹمی، فوجی اور معاشی پابندیاں نافذ ہوتی چلی گئیں۔
اس عرصے میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے تاہم صدر احمدی نژاد اور امریکی صدر بش کے بے لچک رویوں نے کوئی بریک تھرو نہیں ہونے دیا۔
دنیا کی پوری توجہ ایرانی جوہری پروگرام پر مرکوز رہتے ہوئے یہ سوال اٹھانے کی کسی کو فرصت نہیں رہی کہ اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے پر بھی کچھ توجہ کر لی جائے جہاں فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے 1987 کے اندازے کے مطابق 80 ایٹمی ہتھیار تیار پڑے تھے اور آج 2015 ہے۔
قصہ مختصر انتہائی تھکا دینے والے مذاکراتی ادوار کے بعد سوئس شہر لوزان میں 24 مارچ کو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان مع جرمنی اور ایران کے درمیان جس جامع سمجھوتے کا خاکہ طے پایا اس میں ایران کا یہ بنیادی مطالبہ تسلیم کر لیا گیا کہ اسے سویلین مقاصد کے لیے یورینیئم کی3.67 فیصد تک افزودگی کا حق ہو گا۔ (ایٹمی ہتھیار سازی کے لیے 90 فیصد تک افزودگی ضروری ہے اور ایران 20 فیصد تک افزودگی کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے)۔

اسرائیل نے ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے معاہدے کو تاریخی غلطی قرار دیا ہے
اس کے عوض ایران کو اپنے یورینیئم افزودہ کرنے والے سنٹری فیوجز کی تعداد 19 ہزار سے کم کر کے چھ ہزار تک لانی ہو گی۔ ایران پرانے آئی آر ون کے علاوہ کسی اور ساخت کے سینٹری فیوجز استعمال نہیں کر سکے گا۔ ایران اپنا دس ہزار کلو گرام افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کر کے تین سو کلو گرام تک لے آئے گا۔ ایران صرف نطنز کا پلانٹ جوہری افزودگی کے لیے استعمال کرے گا اور فردو کا جوہری مرکز صرف تحقیق و ترقی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوگا۔ ارک کے پلوٹونیم ساز پلانٹ میں تبدیلیاں ہوں گی تاکہ اس میں صرف انرجی گریڈ کا پلوٹونیم تیار ہوسکے۔ ارک کا ہیوی واٹر ری ایکٹر استعمال نہیں ہو سکے گا اور استعمال شدہ پلوٹونیم بیرونِ ملک بھیج دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ آئی اے ای اے کی معائنہ ٹیموں کو تمام جوہری تنصیبات، یورینیم کی کانوں، کارخانوں، سپلائی کے کھاتوں اور دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی کی اچانک چھان پھٹک کا بلا روک ٹوک حق ہوگا۔ ابتداً یہ سمجھوتہ دس سے 15 برس کے عرصے کے لیے ہوگا۔ جیسے ہی آئی اے ای اے تصدیق کرے گا کہ سمجھوتے پر مکمل عمل ہو رہا ہے، ایران کے خلاف پابندیوں کے مرحلہ وار خاتمے کی سلامتی کونسل سے درخواست کی جائے گی۔
اور پھر 30 جون حتمی سمجھوتے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی۔ تاہم علی خامنہ ای سمیت اعلی ایرانی روحانی و سیاسی قیادت کا مطالبہ تھا کہ حتمی سمجھوتے پر دستخط ہوتے ہی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں مرحلہ وار اٹھنے کے بجائے یک مشت اٹھنی چاہییں۔
اس کے عوض مغرب کی فائیو پلس ٹو مذاکراتی ٹیم نے مطالبہ کیا کہ جوہری توانائی کی معائنہ ایجنسی کے انسپکٹروں کو بلا روک ٹوک تمام ایٹمی اور فوجی نوعیت کی تنصیبات کے معائنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس معاملے پر جون میں شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کے حتمی دور میں کڑی سودے بازی ہوئی۔ بالآخر یہ مہم سر کر لی گئی۔

ایران صرف نطنز کا پلانٹ جوہری افزودگی کے لیے استعمال کرے گا
مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسرائیل، سعودی عرب اور امریکی کانگریس اس سمجھوتے سے خوش نہیں۔ اسرائیل ایران کے سویلین جوہری پروگرام کو جڑ سے اکھاڑنے تک مطمئن نہیں ہو گا کیونکہ اسرائیل خطے میں تنِ تنہا ایٹمی قوت رہنا چاہتا ہے یعنی ’سنجھیاں ہو جاون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔‘
سعودی عرب نہ صرف ایرانی جوہری صلاحیت کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے بلکہ اسے یہ فکر بھی ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد جب روزانہ پانچ لاکھ بیرل سے زیادہ ایرانی تیل مارکیٹ میں آئے گا تو تیل کی قیمت مزید غیر یقینی ہوگی اور جب ایران کی اقتصادی مشکیں ڈھیلی ہوں گی تو شام، لبنان، عراق اور یمن سمیت اس کے علاقائی، سیاسی و فوجی اثر و نفوذ میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔
سب سے بڑی آزمائش اب یہ ہے کہ ایک جانب ایران کے اندر کا سخت گیر مذہبی عنصر اس سمجھوتے کو کتنا قبول کرے گا اور اسرائیل کی جانب جھکاؤ رکھنے والی امریکی کانگریس اسرائیل کو مطمئن کرتے ہوئے کب اور کیسے سمجھوتے کی توثیق کرے گی۔

Monday, July 13, 2015

یمن میں سعودی عرب کے خلاف وسیع احتجاج

یمن میں سعودی عرب کے خلاف وسیع احتجاج
یمنی عوام نے اپنے بحران کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی عرب کی جانبداری کئے جانے کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے کئے- یمنی مظاہرین اپنے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر اقوام متحدہ کی جانب سے ملت یمن کے مطالبات کو اہمیت نہ دیئے جانے اور بحران کے حل میں ناکامی پر تنقید کی گئی تھی۔ یمنی مظاہرین نے اقوام متحدہ سے اپنی ذمہ داری نبھانے کا مطالبہ کیا- ایک اور رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے پیر کو یمن کے صوبہ صعدہ پر دوبار بمباری کی۔ سعودی بمباری کے نتیجے میں کئی عام شہری شہید اور زخمی ہو گئے- یمن پر گذشتہ تین مہینوں سے آل سعود کے جارحانہ حملوں میں عوام کو پہنچنے والے بھاری جانی و مالی نقصان کے باوجود سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں کی بمباری بدستور جاری ہے- ان حملوں میں اب تک یمن کے ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں- یمنی فوج اور عوامی رضاکاروں نے سعودی عرب کے حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے صوبہ جیزان میں سعودی فوجی اڈوں پر سات میزائل فائر کئے-













Adam Driver leaves interview 'because he can't stand listening to himself'

Scarlett Johansson and Adam Driver star in Marriage Story  Many of us can't bear to listen to or watch recordings of ourselves. But...