ایران کا جوہری پروگرام 58 برس پرانا ہے۔ 1957 میں امریکہ کی آئزن ہاور انتظامیہ نے ایٹم برائے امن کی اسکیم کے تحت پاکستان اور ایران سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کو پانچ میگاواٹ قوت کے ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیے جن کے لیے افزودہ مواد بھی امریکہ دیتا تھا۔
1968 میں جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے کے ابتدائی دستخط کنندگان میں ایران بھی شامل تھا۔
سمجھوتے کے فریقوں کو پابند کیا گیا کہ ان کی ایٹمی سرگرمیاں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے قوانین و نگرانی کے تابع ہوں گی۔(اسرائیل، پاکستان اور بھارت نے اس سمجھوتے پر آج تک دستخط نہیں کیے)۔
شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے 1974 میں اعلان کیا کہ چونکہ تیل ایک دن ختم ہو جائے گا لہٰذا پیش بندی کے طور پر ایران 1994 تک 23 ہزار میگا واٹ ایٹمی بجلی پیدا کرے گا۔ آٹھ امریکی کمپنیوں سمیت درجن بھر مغربی اداروں سے ٹینڈر طلب کیے گئے۔ ایک جرمن کمپنی سیمنز نے بوشہر میں 1200 میگاواٹ کے پہلے پلانٹ کی تعمیر شروع بھی کر دی۔
مئی 1974 میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ ایک ماہ بعد رضا شاہ پہلوی نے فرانسیسی اخبار لی ماند کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران دنیا کی توقعات سے کہیں پہلے خود کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کر لے گا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ایران امریکہ کا علاقائی پولیس مین اور خطے کی واحد غیر اعلانیہ جوہری قوت اسرائیل کا سفارتی ساجھے دار تھا۔
جون 1974 میں امریکی محکمہ دفاع کی ایک اندرونی یادداشت میں کہا گیا کہ اگر شاہ اپنے جوہری بجلی گھروں کے عظیم الشان منصوبے کو مکمل کر لیتا ہے تو اتنا استعمال شدہ پلوٹونیم پیدا ہوگا جو چھ سو سے سات سو ہتھیاروں کے لیے کافی ہو۔
شاہ کو ایٹمی ہتھیاروں کے خیال سے دور اور سویلیئن ایٹمی راستے پر رکھنے کے لیے امریکیوں نے تجویز پیش کی کہ اگر شاہ ایٹمی مواد کی ری پروسسینگ ملک کے اندر کرنا پسند کریں تو پھر امریکہ کے ساتھ ایک مشترکہ ری پروسینگ پلانٹ لگا لیں یا پھر امریکہ سے اپنے جوہری پلانٹس کے لیے ایندھن اس شرط پہ لے لیں کہ استعمال شدہ ایندھن امریکہ کو واپس کر دیا جائے گا۔
1978 میں صدر جمی کارٹر کے دورۂ تہران کے موقعے پر اس بارے میں جوہری تعاون کا ایک جامع سمجھوتہ بھی اصولاً طے پا گیا مگر حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ شاہ کی حکومت بھی نہ رہی اور ایک نیا ایران نمودار ہو گیا اور کارٹر کو بھی لے ڈوبا۔
آیت اللہ خمینی نے تہران میں اترتے ہی امریکہ کو شیطانِ بزرگ قرار دیا اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرے اور استعمال کو حرام قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کیا ( بعد ازاں 2005 میں علی خامنہ ای نے اس فتوے کی تجدید کی)۔ چنانچہ ’شیطانِ بزرگ‘ نے تہران یونیورسٹی کے ریسرچ ری ایکٹر کے لیے افزودہ یورینیئم کی فراہمی روک دی۔
امریکی کمپنیوں نے جوہری بجلی گھروں کے منصوبوں میں شرکت سے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ فرانس نے اپنی ایک ری پروسیسنگ کمپنی میں سابق شاہی حکومت کے دس فیصد شیئرز منجمد کر دیے اور جرمن کمپنی سیمنز نے امریکی دباؤ پر بوشہر جوہری بجلی گھر کا تعمیراتی کام بیچ میں چھوڑ دیا۔ بعد ازاں عراق ایران جنگ کے دوران عراقی فضائیہ نے بوشہر پلانٹ کے ڈھانچے پر بمباری بھی کی۔
1984 میں ایران نے اعلان کیا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی سمجھوتے (این پی ٹی) کی حدود میں رہتے ہوئے پرامن جوہری سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ ارجنٹینا، چین اور سوویت یونین سےغیر فوجی جوہری تعاون کے سمجھوتے ہوئے۔
ایک روسی کمپنی کو بوشہر بجلی گھر کی تعمیر مکمل کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ ایران نے یہ موقف اپنائے رکھا کہ اسے این پی ٹی کے تحت غیر فوجی مقاصد کے لیے یورینیئم کی افزودگی کا حق حاصل ہے۔
1998 میں جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھما کے کیے تو پانچ روز بعد ایرانی وزیرِ خارجہ کمال خرازی نے اسلام آباد پہنچ کر نواز شریف حکومت کو اس کارنامے پر مبارکباد دی۔
تب تک ایک راز امریکیوں کے علم میں آ چکا تھا مگر نواز شریف حکومت اس راز سے بےخبر تھی، یعنی ڈاکٹر قدیر نیٹ ورک کے توسط سے ایران کو یورینیئم کی افزودگی کے لیے آئی آر ون ماڈل کے سینٹری فیوجز اور جوہری ہتھیاروں کی چینی ڈرائنگز کی فراہمی کا راز۔
آئی اے ای اے نے سنہ 2003 میں اپنی رپورٹ میں پہلی دفعہ انکشاف کیا کہ نطنز کے جوہری مرکز میں فوجی استعمال کے انتہائی افزودہ یورینیئم کے آثار ملے ہیں۔
ایران کا موقف تھا کہ یہ آثار استعمال شدہ پاکستانی سینٹری فیوجز کے ہیں اور ایران نے عدم اعتماد کی فضا کے پیشِ نظر عارضی طور پر یورینیئم کی افزودگی کا عمل بھی روک دیا۔ تاہم آئی ای اے بضد رہی کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
چنانچہ 2006 میں ایران کا کیس آئی اے ای اے کے بورڈ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا اور یوں ایران پر مرحلہ وار ایٹمی، فوجی اور معاشی پابندیاں نافذ ہوتی چلی گئیں۔
اس عرصے میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے تاہم صدر احمدی نژاد اور امریکی صدر بش کے بے لچک رویوں نے کوئی بریک تھرو نہیں ہونے دیا۔
دنیا کی پوری توجہ ایرانی جوہری پروگرام پر مرکوز رہتے ہوئے یہ سوال اٹھانے کی کسی کو فرصت نہیں رہی کہ اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے پر بھی کچھ توجہ کر لی جائے جہاں فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے 1987 کے اندازے کے مطابق 80 ایٹمی ہتھیار تیار پڑے تھے اور آج 2015 ہے۔
قصہ مختصر انتہائی تھکا دینے والے مذاکراتی ادوار کے بعد سوئس شہر لوزان میں 24 مارچ کو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان مع جرمنی اور ایران کے درمیان جس جامع سمجھوتے کا خاکہ طے پایا اس میں ایران کا یہ بنیادی مطالبہ تسلیم کر لیا گیا کہ اسے سویلین مقاصد کے لیے یورینیئم کی3.67 فیصد تک افزودگی کا حق ہو گا۔ (ایٹمی ہتھیار سازی کے لیے 90 فیصد تک افزودگی ضروری ہے اور ایران 20 فیصد تک افزودگی کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے)۔
اس کے عوض ایران کو اپنے یورینیئم افزودہ کرنے والے سنٹری فیوجز کی تعداد 19 ہزار سے کم کر کے چھ ہزار تک لانی ہو گی۔ ایران پرانے آئی آر ون کے علاوہ کسی اور ساخت کے سینٹری فیوجز استعمال نہیں کر سکے گا۔ ایران اپنا دس ہزار کلو گرام افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کر کے تین سو کلو گرام تک لے آئے گا۔ ایران صرف نطنز کا پلانٹ جوہری افزودگی کے لیے استعمال کرے گا اور فردو کا جوہری مرکز صرف تحقیق و ترقی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوگا۔ ارک کے پلوٹونیم ساز پلانٹ میں تبدیلیاں ہوں گی تاکہ اس میں صرف انرجی گریڈ کا پلوٹونیم تیار ہوسکے۔ ارک کا ہیوی واٹر ری ایکٹر استعمال نہیں ہو سکے گا اور استعمال شدہ پلوٹونیم بیرونِ ملک بھیج دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ آئی اے ای اے کی معائنہ ٹیموں کو تمام جوہری تنصیبات، یورینیم کی کانوں، کارخانوں، سپلائی کے کھاتوں اور دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی کی اچانک چھان پھٹک کا بلا روک ٹوک حق ہوگا۔ ابتداً یہ سمجھوتہ دس سے 15 برس کے عرصے کے لیے ہوگا۔ جیسے ہی آئی اے ای اے تصدیق کرے گا کہ سمجھوتے پر مکمل عمل ہو رہا ہے، ایران کے خلاف پابندیوں کے مرحلہ وار خاتمے کی سلامتی کونسل سے درخواست کی جائے گی۔
اور پھر 30 جون حتمی سمجھوتے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی۔ تاہم علی خامنہ ای سمیت اعلی ایرانی روحانی و سیاسی قیادت کا مطالبہ تھا کہ حتمی سمجھوتے پر دستخط ہوتے ہی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں مرحلہ وار اٹھنے کے بجائے یک مشت اٹھنی چاہییں۔
اس کے عوض مغرب کی فائیو پلس ٹو مذاکراتی ٹیم نے مطالبہ کیا کہ جوہری توانائی کی معائنہ ایجنسی کے انسپکٹروں کو بلا روک ٹوک تمام ایٹمی اور فوجی نوعیت کی تنصیبات کے معائنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اس معاملے پر جون میں شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کے حتمی دور میں کڑی سودے بازی ہوئی۔ بالآخر یہ مہم سر کر لی گئی۔
مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسرائیل، سعودی عرب اور امریکی کانگریس اس سمجھوتے سے خوش نہیں۔ اسرائیل ایران کے سویلین جوہری پروگرام کو جڑ سے اکھاڑنے تک مطمئن نہیں ہو گا کیونکہ اسرائیل خطے میں تنِ تنہا ایٹمی قوت رہنا چاہتا ہے یعنی ’سنجھیاں ہو جاون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔‘
سعودی عرب نہ صرف ایرانی جوہری صلاحیت کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے بلکہ اسے یہ فکر بھی ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد جب روزانہ پانچ لاکھ بیرل سے زیادہ ایرانی تیل مارکیٹ میں آئے گا تو تیل کی قیمت مزید غیر یقینی ہوگی اور جب ایران کی اقتصادی مشکیں ڈھیلی ہوں گی تو شام، لبنان، عراق اور یمن سمیت اس کے علاقائی، سیاسی و فوجی اثر و نفوذ میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔
سب سے بڑی آزمائش اب یہ ہے کہ ایک جانب ایران کے اندر کا سخت گیر مذہبی عنصر اس سمجھوتے کو کتنا قبول کرے گا اور اسرائیل کی جانب جھکاؤ رکھنے والی امریکی کانگریس اسرائیل کو مطمئن کرتے ہوئے کب اور کیسے سمجھوتے کی توثیق کرے گی۔
No comments:
Post a Comment