پچھلے ماہ پاکستان کے ضمن میں چین اور بھارت کی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اچھی خاصی جھڑپ ہوئی اوردونوں طاقتوں نے ایک دوسرے پر سفارتی حملے کیے۔
پہلا ٹکراؤ سلامتی کونسل کی سینکشنز کمیٹی(Sanctions Committee ) میں دیکھنے کو ملا۔ یہ کمیٹی مختلف وجوہ کی بنا پر رکن ممالک پر معاشی و عسکری پابندیاں لگاتی ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندے نے اس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تھا جو 25 جون کو منعقد ہوا۔
بھارت نے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی کہ واقعہ 26/11 میں ملوث (بقول بھارتی حکومت) ذکی الرحمن لکھوی کو رہا کرنے پر پاکستان سے جواب طلب کیا جائے۔ لیکن چینی نمائندے نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا اور کہا کہ معاملے کے متعلق بھارتی حکومت نے ضروری معلومات پیش نہیں کیں۔ یوں بھارت کو پاکستان کے خلاف عملی قدم اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا۔
واضح رہے، دسمبر 2014ء سے بھارتی حکومت اقوام متحدہ کی متعلقہ کمیٹیوں میں پاکستانی ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف قراردادیں پیش کررہی ہے، مگر چین کے ویٹوؤں نے کسی تجویز کو عملی جامہ نہیں پہننے دیا۔ یہ حقیقت شاہد ہے کہ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے چین اپنے دیرینہ دوست،پاکستان کی بھر پور مدد و حمایت کررہا ہے۔
یہی سچائی مدنظر رکھ کر مودی حکومت غصے سے پیچ و تاب کھارہی ہے۔ حالیہ سفارتی شکست پر تو بھارتی حکمران طبقے کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ چناں چہ بتایا جاتا ہے، وزیراعظم نریندر مودی نے خود اس معاملے پر چینی حکومت سے بات کی۔لگتا ہے، چین نے نریندر مودی کو گول مول جواب دے کر ٹرخا دیا اور کہا کہ جاؤ میاں، اپنی عیاریاں کسی اور کو دکھاؤ۔ اسی لیے بھارتی حکومت نے بھی چین پر جوابی سفارتی حملہ کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ یہ موقع اسے جلد میسر آگیا۔
اقوام متحدہ جس ملک، ادارے یا تنظیم پر بہ سلسلہ دہشت گردی پابندیاں لگائے، انہیں عملی شکل دینے کا کام اس کی ایک تنظیم،فناشل ایکشن ٹاسک فورس انجام دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کا ایک ذیلی ادارہ ایشیا پیسفک گروپ بھی ہے۔ پاکستان بھی اس گروپ کا رکن ہے۔
29 جون کو آسٹریلوی شہر، برسبین میں فناشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس میں بھارت نے امریکا اور آسٹریلیا کی پشت پناہی سے یہ قرارداد پیش کی کہ پاکستان حافظ محمد سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور داؤد ابراہیم جیسے ’’دہشت گردوں‘‘ کی سرپرستی کررہا ہے۔ لہٰذا اس کے مالیاتی امور پر نظر رکھی جائے۔
اجلاس میں چینی نمائندے نے بھر پور کوشش کی کہ یہ قرارداد منظور نہ ہو، تاہم انہیں ناکامی ہوئی۔ بھارت نے امریکا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت سے قرارداد منظور کرالی۔ اب ٹاسک فورس اپنے ایشیا پیسفک گروپ کے ذریعے پاکستان کے مالیاتی امور پر نظر رکھتے ہوئے دیکھے گی کہ ’’دہشت گردوں‘‘ کو تو کسی قسم کا سرمایہ نہیں مل رہا۔
22 مئی کو کراچی میں چینی آبدوز کی آمد نے بھی بھارت اور چین کی لفظی جنگ کرادی۔ یوان کلاس کی یہ آبدوز تارپیڈو اور جہاز شکن میزائلوں سے لیس ہے۔ پاکستان ایسی ہی 8 آبدوزیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چینی بحریہ طویل عرصہ اپنے پانیوں تک ہی محدود رہی۔ مگر اب وہ دیگر عالمی طاقتوں کے مانند دیگر سمندروں میں بھی پہنچ رہی ہے۔ چینی آبدوزیں دو بار کولمبو (سری لنکا) کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوچکیں۔ اس پر بھارت نے خاصا پر زور احتجاج کیا تھا۔ وجہ یہی کہ وہ خود کو بحرہند کا چودھری سمجھتا ہے۔
مگر چینی حکومت نے بھارتیوں کے احتجاج کو بالکل اہمیت نہ دی اور اب اپنی آبدوز بھارتی پانیوں کے نہایت قریب سے گزارتے ہوئے کراچی تک پہنچا دی۔ اس پر بھارتی حکمران طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بھارتی بحریہ کے چیف، ایڈمرل روبن دھوان نے بیان دیا ’’ہم بحرہند میں چینی آبدوزوں کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کیا چیلنج رکھتی ہیں۔‘‘
یاد رہے، اس بحری جنگ کا آغاز بھارت نے کیا جب چند برس قبل بھارتیوں نے اپنے جنگی و سول بحری جہاز بحیرہ جنوبی چین بھجوادیے۔ اس بحیرہ میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں جن پر چین اور تائیوان، ویت نام، فلپائن وغیرہ کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے۔ بھارتی جہازوں کی موجودگی پر چین نے اعتراض کیا اور پھر جواباً اپنی آبدوزیں بحرہند میں بھجوانے لگا۔
بھارت نے کراچی میں چینی آبدوز پہنچنے پر تشویش ظاہر کی،تو چین کے ماہر عسکریات، زیاؤ پی (Zhao Yi) نے اسے منہ توڑ جواب دیا۔ زیاؤ پی چین کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا ’’بحرہند پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی وہ بھارت کا پچھواڑہ ہے۔ اس علاقے میں ہر کوئی آجا سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے، امریکی ماہرین عسکریات کا دعویٰ ہے، اگلے پچیس تیس برس میں بحرہند میں بھارتی اور چینی بحریاؤں کے مابین زبردست جنگیں ہوسکتی ہیں۔ اوریہ حقیقت ہے، دنیا میں چین اور بھارت کے باہمی تعلقات سب سے زیادہ عجیب و غریب ہیں۔ دونوں ممالک سنگین سرحدی تنازعات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پھر بھارتی پاک چین دوستی کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کی باہمی تجارت 71 ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ چین اور بھارت اسے 100 ارب ڈالر تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس باہمی تجارت کا جھکاؤ چین کی طرف بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال چینی کمپنیوں نے 60 ارب ڈالر کا مال بھارت بھجوایا۔ جبکہ بھارتی صرف 12 ارب ڈالر کا سامان ہی چین بھجوا سکے۔ بھارت میں سستے چینی سامان کی کثرت سے کئی بھارتی کمپنیاں بند ہوچکیں۔ نیز بھارت میں چینی مال کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت اس وقت گائے کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ برآمد بڑھانے اور ڈالر کمانے کے لیے ہی مودی حکومت چاہتی ہے کہ بھارت میں گائے ماتا کے ذبیح پر پابندی لگ جائے۔ ریاست مہاراشٹر میں اس پابندی کا نفاذ ہوچکا۔
No comments:
Post a Comment