حسینی میڈیا پروڈکشن نیوز
کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج نے خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن کو کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر کردیا ہے جس کے دوران عسکریت پسندوں کو موثر انداز میں علاقے سے باہر نکالا گیا اور افغانستان کے ساتھ سرحد پر ان کے کراسنگ پوائنٹس کو بھی بند کیا گیا۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے باڑہ اور وادی تیراہ میں ملنے والی کامیابیوں پر ابھی بھی سوالیہ نشان ہے کہ آیا انتظامی اور معاون امدادی نظام کے بغیر اسے لمبے عرصے تک برقرار رکھا جاسکے گا۔
حکومت نے آپریشن ضرب عضب کو ایک سال مکمل ہونے یعنی 15 جون کو آپریشن خیبر ٹو کے اختتام کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔
چار دن بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے تیراہ کا دورہ کیا اور ساڑھے تین ماہ تک جاری رہنے والے آپریشن میں کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا۔
باوثوق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ فوج نے اہم علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے جبکہ قبائلی علاقوں میں ان کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں تحریک طالبان پاکستان اور لشکر اسلام کو جگہ سے محروم کردیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ فوج نے افغانستان کو تیراہ سے ملانے والے تین پاسز پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
تین میں سے دو پاسز پر فوج کا قبضہ ہے جبکہ تیسرا اس کی گولیوں کے نشانے پر ہے جس کے باعث اس پاس سے بھی کسی قسم کی نقل حرکت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
تاہم یہ کامیابیاں آسانی سے نہیں ملیں۔ خیبر آپریشن کے دوسرے مرحلے کے دوران فوج کے افسران سمیت 50 سے زائد جوان مارے گئے جبکہ دیگر 100 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔
سیکیورٹی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'یہ آسان نہیں تھا، علاقے میں بھاری تعداد میں بارودی سرنگیں بھی تھیں۔ ہر 15 میٹر کے بعد ایک سرنگ موجود ہوتی تھی جسے پیشہ ورانہ انداز میں غیر فعال بنایا گیا۔'
سیکیورٹی افسر کے مطابق خیبر سنگھار کی صرف ایک لڑائی میں میجر سمیت فوج کے گیارہ اہلکار ہلاک ہوئے اور یہ بہت مشکل لڑائی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ 95 فیصد علاقہ اب حکومت کے مضبوط کنٹرول میں ہے جبکہ عسکریت پسند کچکول اور رجگال کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں جنہیں فضائی حملوں سے ہدف بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ممکن نہیں کہ وہ اب واپس یہاں آسکیں۔'
ابھی یہ بات غیر واضح ہے کہ فوج خیبر ٹو کا آخری مرحلے کا آغاز کرے گی تاکہ رجگال اور کچکول کی وادیوں کا کنٹرول حاصل کی جاسکے یا پھر فضائی حملوں سے سردیوں تک عسکریت پسندوں کو ہدف بنایا جائے گا جس کے بعد یہ علاقے رہنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ایک متعلقہ محکمے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کی سیکیورٹی صورت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کے پہلے کوارٹر میں پشاور ڈیویژن میں 136 دہشت گردی کے واقعات ہوئے تھے جبکہ اس سال اسی عرصے میں 44 واقعات ہوئے۔
حکام کے مطابق حکومت کے پاس اب تیراہ میں اپنی انتظامی رٹ قائم کرنے کا سنہری موقع ہے ۔
عسکریت پسند کہاں گئے؟
تیراہ وہ علاقہ بن چکا تھا جہاں سوات اور دیگر قبائلی علاقوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے نکالے گئے ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند جمع ہوگئے تھے اور جہاں سے پشاور اور دیگر علاقوں میں حملوں کو اسپانسر کیا جاتا تھا۔
منگل باغ اور دیگر جنگجو جن کی تعداد 200 سے 300 بتائی جاتی ہے، نے علاقہ چھوڑنے کے بعد افغانستان کے ننگرہار صوبے کے ضلع نازیان میں پناہ لے لی ہے جو کہ تیراہ سے کافی قریب ہے۔
تاہم سیکیورٹی حکام کے مطابق منگل باغ نے اپنے نئے گھر سے اپنی تقاریر ایک طاقتور ایف ایم ٹرانسمیٹر کے ذریعے جاری رکھی ہوئی تھیں جنہیں باڑہ سے بھی سنا جاسکتا تھا۔
فوج کی جانب سے ان کی براڈکاسٹ کو روکنے کی کوششیں بظاہر ناکام رہیں۔
ادھر ٹی ٹی پی اور جماعت الحرار جنہوں نے منگل باغ کے ساتھ علاقے میں اتحاد قائم کیا تھا اور اپنے جنگجو بھی فراہم کیے تھے، کو بھی پیچھے دھکیلا گیا ہے اور وہ بھی نازیان میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ منگل باغ نے اب اسلامک اسٹیٹ گروپ کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا ہے اور وہ افغان طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق منگل باغ کے 700 سے زائد جنگجوؤں نے فوج کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انہیں باڑہ میں ڈی ریڈیکلائزیشن سینٹر میں رکھا گیا ہے۔
ایک اور سیکیورٹی افسر نے بتایا کہ قبائلی خطے میں یہ واحد علاقہ ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔
باڑہ میں سرگرم امر بالمعراف تنظیم کا بھی قلع قمع کردیا گیا ہے جبکہ اس نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اس کی بیس پر انتظامیہ کا کنٹرول ہے۔
تیراہ کی کامیابیوں کو درپیش مشکلات
اس سلسلے میں ایک بڑا چیلنج رجگال اور کچکول وادیوں کو کلیئر کرنا ہے جس کے بعد عکسریت پسندوں کے واپسی کرنے کے تمام تر امکانات ختم ہوجائیں گے۔
تاہم اس سے بھی بڑا چیلنج فوج کے علاقے سے چلے جانے کے بعد سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہاں سیکیورٹی صورت حال سنبھالنا ہے۔
سرکاری اور سیکیورٹی حکام کے مطابق وفاقی حکومت سے علاقے کے لیے لیویز کی تیسری کھیپ کو بھرتی کرنے کی درخواست کی گئی ہے جن کی تعداد 650 ہوگی۔
اس کے علاوہ ایف سی اور خاصہ دار فورس بھی علاقے میں سیکیورٹی فراہم کرے گی۔ لیویز کو فوج کی جانب سے تربیت بھی دی جائے گی۔
سیاسی انتظامیہ اور سیکیورٹی اسٹبلشمنتٹ کے لیے ایک اور چیلنج زخاخیل بازار کو کھولنا اور اسے رواں دواں کرنا ہوگا۔
حکام کے مطابق تیراہ میں ایک تحصیل دفتر کے قیام کی پہلے ہی درخواست دی جاچکی ہے جسے حکومت کو منظور کرنا ہے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نواز تنظیموں کے بھی خاتمے سے صاف پیغام پہنچے گا کہ علاقے میں متوازی انتظامیہ کی اب کوئی گنجائش نہیں۔
No comments:
Post a Comment