Saturday, June 23, 2018
لال مسجد آپریشن کیوں ہوا ؟ کچھ تلخ حقائق
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لال مسجد اور قبائیلی علاقوں میں آپریشن نے پاک آرمی کو بہت بدنام کیا ہے ۔ جتنے منہ اتنی باتیں ، کوئی فوج کو ننگی گالیاں دے رہا ہے تو کوئی کہتا ہے ڈالر لے کریہ دونوں کام ہوئے۔
کوئی لال مسجد والوں کو قصوروار ٹھہراتا ہے ۔
ایک مسلمان ہونے کے ناطے لال مسجد آپریشن سب کے لیے باعثِ شرم ہے ۔ مسجد کا تقدس پامال ہوا، قرآن پاک اور لوگ بھی شہید ہوئے اور ایک بہت بُرا تاثر قائم ہوا۔
لال مسجد والوں کا کہنا تھاکہ اسلامی شریعہ نافذ ہو۔ بے حیائی کے اڈے بند ہوں ۔
بات ٹھیک تھی کوئی شک نہیں، لیکن طریقہ غلط تھا۔
اپنی بات کو منوانے کیلیے انہو ں نے لوگوں کو اغوا بھی کیا۔
اسلحہ کے زو ر پے بدمعاشیاں بھی کی ۔
عورتوں کو سرِ عام بازار میں زلیل کیا گیا ۔
سی ڈی شاپ کو آگ لگائی گئی
اسکے باوجود 18 ماہ تک کوئی آپریشن نہیں کیا گیا ۔
کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت تک آرمی کا نہیں تھا۔ بلکہ مسئلہ تب اسلام آباد لوکل گورنمنٹ اور پولیس کا تھا۔
مارچ 2007 میں لال مسجد کی طالبات نے تین عورتوں کو اغوا کیا اور الزام عائد کیا کہ یہ جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں ۔ بعد میں ان کو رہا کیا گیا۔
فروری2007 کو عبد العزیز نے پاکستان سپریم کورٹ کے متوازی "شرعیہ کورٹ" بنالی اور دھمکی دی گئی اگر اس شرعیہ کورٹ کی بات نا مانی گئی یا کورٹ ختم کی گئی تو ہزاروں خود کش حملہ آوروں کو کھلی آزادی ہو گی وہ جہاں مرضی خود کش حملہ کریں۔
لال مسجد کے طلبہ و طالبات نے 'چلڈرن لائیبریری' پر دھاوہ بول دیا اور قبضہ کر لیا لیکن انہوں نے یہیں تک بس نہیں کیا بلکہ دس چائینیز اور بہت سے لوگوں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں کو اغوا کیا۔
تین جولائی 2007 کو جامعہ حفصہ کی طالبات کی پاکستان رینجرز کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ عینی شاہدین کے مطابق پاکستان کے رینجرز نے ہوائی فائرنگ کی لیکن ڈنڈا بردار طالبات نے ان سے وائرلیس سیٹ اور ہتھیار چھین لیے۔ رینجزز کو فلحال کوئی حکم نہیں تھا جوابی کاروائی کا۔ پولیس آئی اور آنسو گیس کے گولے فائر کر کے رینجرز کو چھڑایا۔
لیکن بات یہیں نہیں ختم ہوئی بلکہ پھر ڈیرھ سو طلبہ و طالبات نے محکمہ موسمیات کی عمارت پہ حملہ کر دیا اور وہاں آتے جاتے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی۔پولیس اور رینجرز نے وہاں جوابی کاروائی کی۔ اس آپریشن کے خاتمے پر 9 لوگ ہلاک ہوئے جن میں 4 لال مسجد کے حملہ آور بھی تھے۔ وہ علاقہ فوراً خالی کروا لیا گیا اور پاک آرمی کے شردل جوانوں نے کنٹرول سنبھال لیا۔
آگلے دن پورے علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا اور آرمی کو حکم ملا کہ کوئی بھی مسجد سے باہر اسلحہ سمیت نکلے تو فوراً پکڑ لیا جائے، اگر مزاحمت ہو تو گولی مار دی جائے۔
حکومتِ پاکستان نے فی طالبات کو پانچ پانچ ہزار مع فری تعلیم کی پیش کش کی طالبات کو ان کے گھر پہنچانے کی ضمانت بھی دی گئی ۔
چار جولائی 2007 تک دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران حکومت کی جانب سے دو بار ڈیڈ لائن بھی دی گئی۔ لیکن لال مسجد کی انتظامیہ نے ہتھیار نہیں پھینکے ۔
پانچ جولائی کو تیسری اور چوتھی ڈیڈ لائن دی گئی کیونکہ پاکستان آرمی کسی بھی صورت مسجد میں آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسی دوران عبدالعزیز برقع پہن کر بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوئے۔
جب اپنے لیڈر کو گرفتار ہوتے دیکھا تو چار سو طالبات اور آٹھ سو کے قریب طلبہ ہتھیار پھنک کر اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا۔
چھ جولائی کو بھی مسجد میں حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگ مذاکرات کرنے گئے ، عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی عبدالرشید کے ساتھ مذاکرات ہوئے، لیکن کامیاب نا ہو سکے، عبدالرشید نے کہا کہ میری ماں کو با حفاظت باہر لے جایا جائے اور انکا علاج کروایا جائے، ہم ہتھیار پھینک دیں گے لیکن کسی کو کچھ نا کہا جائے۔
حکومتی وفد خوشی خوشی واپس آ گیا کہ شاید مذاکرات کامیاب ہو نے جا رہے ہیں ۔لیکن کچھ ہی دیر بعد لال مسجد سے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی۔ اسی شام جیو نیوز کے لائیو پروگرام میں عبدالرشید اپنی شرائط سے پھر گئے۔ ممکن ہے مسجد کے اندر کچھ القائدہ کے دہشت گرد موجود تھے جنہوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کروائی اور عبد الرشید کو مطالبات سے مکر جانے پر مجبور بھی کیا تاکہ فوج کو آپریشن پر مجبور کیا جاسکے۔
اس دوران اکیس مزید طلبہ و طالبات نےاپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا، اور پاک آرمی کے جانثار کمانڈوز کو مسجد کا گھیرا کرنے کا حکم ملا۔
لیکن پاک آرمی کے جوانوں کو مسجد کی جانب سے سخت اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کا سامنا تھا،
جنرل مشرف اسلام آباد سے بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کیلیے نکلے، جونہی ان کے طیارے نے پرواز کی، لال مسجد کی چھت سے اینٹی ائیر کرافٹ گن سے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا گیا، لیکن طیارے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
اب آرمی ، آئی ایس آئی پر واضع ہو گیا کہ مسجد میں چھپے صرف طالبعلم نہیں بلکہ انکے ہتھیاروں اور باہر سے مسجد کو ملنے والی معلومات سے یقین ہو گیا تھا کہ اندر طالبان اور القائدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ہیں ۔
میں ان لوگوں کی باتوں پے حیران ہوتا ہوں جو صاف جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی ہتھیار نہیں تھا بلکہ آرمی نے خود رکھے تھے، ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا تھا، کوئی بھی مسجد کے قریب جانا تو سامنے سے ہیوی فائرنگ کا سامنا کرناپڑتا۔ یہ اینٹی ائیر کرافٹ گن اور ٹنک شکن راکٹ لانچر مسجد کے اندر کہاں سے آ گئے ؟
سات جولائی کو ایس ایس جی کمانڈوز کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا، اسی فائرنگ کی زد میں کمانڈوز کے 'کرنل ہارون اسلام' آگئے اور دو دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئے، آپریشن کامیاب رہا اور پاکستانی کمانڈوز کو لال مسجد کی دیواروں تک رسائی مل گئی۔
تاہم عبدالرشید نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران مفتی اعظم اور "امام کعبہ شیخ عبدالرحمان سدیس" اور "مولانا طارق جمیل" بھی عبدالرشید سے مذاکرات کرنےکی کوشش کرتے رہے کہ ہتھیار پھینک دو، مسجد کے تقدس کا خیال کرو، زبردستی کا آسلام نافظ کرنا غلط ہے وغیرہ۔ یہاں تک کہ امام کعبہ نے ریاست پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ہتھیاروں سے فائرنگ کرنے والوں کو واضع الفاظ میں خوارج بھی کہا اور ان کو قتل کرنا جائز قرار دیا۔
اب یہ جنگ گرفتاری یا آپریشن ہی سے ختم ہو سکتی تھی۔ اس لیے لال مسجد کی انتظامیہ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ نہیں ہوئی،
اس کی سب سے بڑی وجہ اندر چھپے ہوئے کچھ القائدہ کے لوگ تھے جنکے پاس آرمی سے لڑنے کیلیے خطرناک جدید ہتھیار تھے۔
آرمی نے ایمبولنس اور کھانے کا سامان بھیجا اور لال مسجد انتظامیہ سے کہا کے بچوں کو باہر بھیج دیں کیونکہ آرمی یہی چاہتی تھی کہ تمام طالب علم بچے باہر نکل جائیں اور باقی القائدہ کے دہشت گردوں سے مقابلا کرکے مسجد خالی کروائی جائے۔ لیکن شاید اب یہ جنگ انّا کی جنگ بن چکی تھی۔
چنانچہ دس جولائی کو کمانڈوز نے پیشقدمی کا فیصلہ کیا لیکن مسجد کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسجد کے اندر سے جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی جارہی تھی۔
ابھی تک پاکستان آرمی کے کمانڈوز کو بم یا ہینڈ گرنیڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آخر کمانڈوز نے لال مسجد کے احاطے پر قبضہ کرلیا،
جو آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے تھے انکا کوئی اثر نہیں ہو سکا، کیونکہ اندر موجود عسکریت پسندوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔
اب تمام عسکریت پسند مسجد سے جامعہ حفصہ اپنے مورچوں میں چلے گئے،
یہ بنکرز یا مورچے تین ماہ پہلے بنائے گئے تھے۔ شاید ان کوپتا تھا کہ یہ سب ہو گا۔ اسلیے خطرناک اسلحے کے ڈھیر جمع کیے اور چھپنے کے لیے بنکرز بنا رکھے تھے۔
جب بہت زیادہ مذاحمت ہوئی اور راکٹ لانچر، سلفر بمبوں سے کمانڈوز پر حملے پر ہوئے تو کمانڈوز نے بھی جوابی کاروائی کی ۔ لیکن ان کا استقبال مشن گن سے کیا گیا۔
اسی دوران ایک عسکریت پسند نے خودکش حملہ کیا اور وہاں موجود تمام لوگ مر گئے۔
عبدالرشید کو پاوں میں گولی لگی لیکن ہتھیار پھینک کر کہا میں ہتھیار پھینکتا ہوں۔ اور ہاتھ اوپر کر لیے لیکن انکے ساتھ کھڑےعسکریت پسندوں (القائدہ دہشت گردوں) نے ہتھیار نہیں پھینکے اور کراس فائر میں عبدالرشید اپنے ہی ساتھی کی گولی کی زد میں آ گئے ۔
اس آپریشن میں کل 109 لوگ جاں بحق ہوئے۔ 91 عسکریت پسند اور 10 باقی لوگوں میں کمانڈوز اور ایک رینجر کا اہلکار شامل ہے ۔
کل 1096 لوگوں کو باحفاظت باہر نکالا گیا جن میں 628 مرد، 465 عورتیں اور تین بچے شامل ہیں۔
اس آپریشن پے بہت کھیل کھیلا گیا، سیاسی اور مذہبی بھی۔ کبھی کوئی کہتا ہے ہزاروں مارے گئے، کوئی کہتا ہے فوج نے کلسٹر بم استعمال کیے۔
میری سب پاکستانیوں سے گذارش ہے کہ تنقید سے پہلے حقائق جان لینے چاہیں۔
انسان کو اتنا بھی انتہا پسند نہیں ہونا چاہیے کہ اپنی موت کا تو خود زمہ دار بنے لیکن ساتھ دوسرے ہزاروں کی زندگی بھی تباہ کر دیں۔
اس جنگ میں اسلام بدنام ہوا، دشمن دل سے خوش ہوا ہو گا،
اگر پاکستان کے قانون اپکو نہیں پسند تو ان لیڈرز کو سامنے لائیں جو آپ کی آواز بنیں ۔
اور میری یہ بھی گزارش ہے کی خدارا گورنمنٹ کی رِٹ کو چیلنج کرنا چھوڑ دیں۔ اگر لڑائی کا اتنا شوق ہے تو پولیس یا آرمی میں بھرتی ہو جاہیں۔ اپنے مکروہ اور شددپسند چہرے کو چھپانے کیلیے پاکستان آرمی کو بدنام کرنا چھوڑ دیں، میڈیا اور عسکریت پسندوں کی وجہ سے پہلے ہی آرمی تنگ ہے۔ جو آپ کی حفاظت منفی پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی کرتے ہیں،
اللہ سب کو سمجھنے کی قوت دے اور پاکستان کو پر سکون بنا دے ۔ آمین
آئندہ اگر کوئی لال مسجد کے نام پر آپ کو فوج کے خلاف نفرت پر اکسائے تو اس کے منہ پر یہ حقائق مار دیجیے گا کیونکہ ایسے جاہلوں کو خود بھی حقائق معلوم نہیں ہوتے، یہ لوگ بھی بس سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور یہ جھوٹی کہانیاں بھی دشمن کے لوگ ہی پھیلاتے ہیں تاکہ مذھبی حلقوں کو یہ باور کروایا جائے کہ پاک فوج کفار کی فوج ہے تاکہ فوج کمزور ہو اور دشمن کو موقع مل سکے کہ پاکستان کو بھی شام و عراق کی طرح تباہ و برباد کردے۔
پلیز شیئر
ایک مسلمان ہونے کے ناطے لال مسجد آپریشن سب کے لیے باعثِ شرم ہے ۔ مسجد کا تقدس پامال ہوا، قرآن پاک اور لوگ بھی شہید ہوئے اور ایک بہت بُرا تاثر قائم ہوا۔
لال مسجد والوں کا کہنا تھاکہ اسلامی شریعہ نافذ ہو۔ بے حیائی کے اڈے بند ہوں ۔
بات ٹھیک تھی کوئی شک نہیں، لیکن طریقہ غلط تھا۔
اپنی بات کو منوانے کیلیے انہو ں نے لوگوں کو اغوا بھی کیا۔
اسلحہ کے زو ر پے بدمعاشیاں بھی کی ۔
عورتوں کو سرِ عام بازار میں زلیل کیا گیا ۔
سی ڈی شاپ کو آگ لگائی گئی
اسکے باوجود 18 ماہ تک کوئی آپریشن نہیں کیا گیا ۔
کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت تک آرمی کا نہیں تھا۔ بلکہ مسئلہ تب اسلام آباد لوکل گورنمنٹ اور پولیس کا تھا۔
مارچ 2007 میں لال مسجد کی طالبات نے تین عورتوں کو اغوا کیا اور الزام عائد کیا کہ یہ جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں ۔ بعد میں ان کو رہا کیا گیا۔
فروری2007 کو عبد العزیز نے پاکستان سپریم کورٹ کے متوازی "شرعیہ کورٹ" بنالی اور دھمکی دی گئی اگر اس شرعیہ کورٹ کی بات نا مانی گئی یا کورٹ ختم کی گئی تو ہزاروں خود کش حملہ آوروں کو کھلی آزادی ہو گی وہ جہاں مرضی خود کش حملہ کریں۔
لال مسجد کے طلبہ و طالبات نے 'چلڈرن لائیبریری' پر دھاوہ بول دیا اور قبضہ کر لیا لیکن انہوں نے یہیں تک بس نہیں کیا بلکہ دس چائینیز اور بہت سے لوگوں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں کو اغوا کیا۔
تین جولائی 2007 کو جامعہ حفصہ کی طالبات کی پاکستان رینجرز کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ عینی شاہدین کے مطابق پاکستان کے رینجرز نے ہوائی فائرنگ کی لیکن ڈنڈا بردار طالبات نے ان سے وائرلیس سیٹ اور ہتھیار چھین لیے۔ رینجزز کو فلحال کوئی حکم نہیں تھا جوابی کاروائی کا۔ پولیس آئی اور آنسو گیس کے گولے فائر کر کے رینجرز کو چھڑایا۔
لیکن بات یہیں نہیں ختم ہوئی بلکہ پھر ڈیرھ سو طلبہ و طالبات نے محکمہ موسمیات کی عمارت پہ حملہ کر دیا اور وہاں آتے جاتے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی۔پولیس اور رینجرز نے وہاں جوابی کاروائی کی۔ اس آپریشن کے خاتمے پر 9 لوگ ہلاک ہوئے جن میں 4 لال مسجد کے حملہ آور بھی تھے۔ وہ علاقہ فوراً خالی کروا لیا گیا اور پاک آرمی کے شردل جوانوں نے کنٹرول سنبھال لیا۔
آگلے دن پورے علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا اور آرمی کو حکم ملا کہ کوئی بھی مسجد سے باہر اسلحہ سمیت نکلے تو فوراً پکڑ لیا جائے، اگر مزاحمت ہو تو گولی مار دی جائے۔
حکومتِ پاکستان نے فی طالبات کو پانچ پانچ ہزار مع فری تعلیم کی پیش کش کی طالبات کو ان کے گھر پہنچانے کی ضمانت بھی دی گئی ۔
چار جولائی 2007 تک دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران حکومت کی جانب سے دو بار ڈیڈ لائن بھی دی گئی۔ لیکن لال مسجد کی انتظامیہ نے ہتھیار نہیں پھینکے ۔
پانچ جولائی کو تیسری اور چوتھی ڈیڈ لائن دی گئی کیونکہ پاکستان آرمی کسی بھی صورت مسجد میں آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسی دوران عبدالعزیز برقع پہن کر بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوئے۔
جب اپنے لیڈر کو گرفتار ہوتے دیکھا تو چار سو طالبات اور آٹھ سو کے قریب طلبہ ہتھیار پھنک کر اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا۔
چھ جولائی کو بھی مسجد میں حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگ مذاکرات کرنے گئے ، عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی عبدالرشید کے ساتھ مذاکرات ہوئے، لیکن کامیاب نا ہو سکے، عبدالرشید نے کہا کہ میری ماں کو با حفاظت باہر لے جایا جائے اور انکا علاج کروایا جائے، ہم ہتھیار پھینک دیں گے لیکن کسی کو کچھ نا کہا جائے۔
حکومتی وفد خوشی خوشی واپس آ گیا کہ شاید مذاکرات کامیاب ہو نے جا رہے ہیں ۔لیکن کچھ ہی دیر بعد لال مسجد سے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی۔ اسی شام جیو نیوز کے لائیو پروگرام میں عبدالرشید اپنی شرائط سے پھر گئے۔ ممکن ہے مسجد کے اندر کچھ القائدہ کے دہشت گرد موجود تھے جنہوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کروائی اور عبد الرشید کو مطالبات سے مکر جانے پر مجبور بھی کیا تاکہ فوج کو آپریشن پر مجبور کیا جاسکے۔
اس دوران اکیس مزید طلبہ و طالبات نےاپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا، اور پاک آرمی کے جانثار کمانڈوز کو مسجد کا گھیرا کرنے کا حکم ملا۔
لیکن پاک آرمی کے جوانوں کو مسجد کی جانب سے سخت اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کا سامنا تھا،
جنرل مشرف اسلام آباد سے بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کیلیے نکلے، جونہی ان کے طیارے نے پرواز کی، لال مسجد کی چھت سے اینٹی ائیر کرافٹ گن سے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا گیا، لیکن طیارے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
اب آرمی ، آئی ایس آئی پر واضع ہو گیا کہ مسجد میں چھپے صرف طالبعلم نہیں بلکہ انکے ہتھیاروں اور باہر سے مسجد کو ملنے والی معلومات سے یقین ہو گیا تھا کہ اندر طالبان اور القائدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ہیں ۔
میں ان لوگوں کی باتوں پے حیران ہوتا ہوں جو صاف جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی ہتھیار نہیں تھا بلکہ آرمی نے خود رکھے تھے، ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا تھا، کوئی بھی مسجد کے قریب جانا تو سامنے سے ہیوی فائرنگ کا سامنا کرناپڑتا۔ یہ اینٹی ائیر کرافٹ گن اور ٹنک شکن راکٹ لانچر مسجد کے اندر کہاں سے آ گئے ؟
سات جولائی کو ایس ایس جی کمانڈوز کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا، اسی فائرنگ کی زد میں کمانڈوز کے 'کرنل ہارون اسلام' آگئے اور دو دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئے، آپریشن کامیاب رہا اور پاکستانی کمانڈوز کو لال مسجد کی دیواروں تک رسائی مل گئی۔
تاہم عبدالرشید نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران مفتی اعظم اور "امام کعبہ شیخ عبدالرحمان سدیس" اور "مولانا طارق جمیل" بھی عبدالرشید سے مذاکرات کرنےکی کوشش کرتے رہے کہ ہتھیار پھینک دو، مسجد کے تقدس کا خیال کرو، زبردستی کا آسلام نافظ کرنا غلط ہے وغیرہ۔ یہاں تک کہ امام کعبہ نے ریاست پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ہتھیاروں سے فائرنگ کرنے والوں کو واضع الفاظ میں خوارج بھی کہا اور ان کو قتل کرنا جائز قرار دیا۔
اب یہ جنگ گرفتاری یا آپریشن ہی سے ختم ہو سکتی تھی۔ اس لیے لال مسجد کی انتظامیہ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ نہیں ہوئی،
اس کی سب سے بڑی وجہ اندر چھپے ہوئے کچھ القائدہ کے لوگ تھے جنکے پاس آرمی سے لڑنے کیلیے خطرناک جدید ہتھیار تھے۔
آرمی نے ایمبولنس اور کھانے کا سامان بھیجا اور لال مسجد انتظامیہ سے کہا کے بچوں کو باہر بھیج دیں کیونکہ آرمی یہی چاہتی تھی کہ تمام طالب علم بچے باہر نکل جائیں اور باقی القائدہ کے دہشت گردوں سے مقابلا کرکے مسجد خالی کروائی جائے۔ لیکن شاید اب یہ جنگ انّا کی جنگ بن چکی تھی۔
چنانچہ دس جولائی کو کمانڈوز نے پیشقدمی کا فیصلہ کیا لیکن مسجد کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسجد کے اندر سے جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی جارہی تھی۔
ابھی تک پاکستان آرمی کے کمانڈوز کو بم یا ہینڈ گرنیڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آخر کمانڈوز نے لال مسجد کے احاطے پر قبضہ کرلیا،
جو آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے تھے انکا کوئی اثر نہیں ہو سکا، کیونکہ اندر موجود عسکریت پسندوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔
اب تمام عسکریت پسند مسجد سے جامعہ حفصہ اپنے مورچوں میں چلے گئے،
یہ بنکرز یا مورچے تین ماہ پہلے بنائے گئے تھے۔ شاید ان کوپتا تھا کہ یہ سب ہو گا۔ اسلیے خطرناک اسلحے کے ڈھیر جمع کیے اور چھپنے کے لیے بنکرز بنا رکھے تھے۔
جب بہت زیادہ مذاحمت ہوئی اور راکٹ لانچر، سلفر بمبوں سے کمانڈوز پر حملے پر ہوئے تو کمانڈوز نے بھی جوابی کاروائی کی ۔ لیکن ان کا استقبال مشن گن سے کیا گیا۔
اسی دوران ایک عسکریت پسند نے خودکش حملہ کیا اور وہاں موجود تمام لوگ مر گئے۔
عبدالرشید کو پاوں میں گولی لگی لیکن ہتھیار پھینک کر کہا میں ہتھیار پھینکتا ہوں۔ اور ہاتھ اوپر کر لیے لیکن انکے ساتھ کھڑےعسکریت پسندوں (القائدہ دہشت گردوں) نے ہتھیار نہیں پھینکے اور کراس فائر میں عبدالرشید اپنے ہی ساتھی کی گولی کی زد میں آ گئے ۔
اس آپریشن میں کل 109 لوگ جاں بحق ہوئے۔ 91 عسکریت پسند اور 10 باقی لوگوں میں کمانڈوز اور ایک رینجر کا اہلکار شامل ہے ۔
کل 1096 لوگوں کو باحفاظت باہر نکالا گیا جن میں 628 مرد، 465 عورتیں اور تین بچے شامل ہیں۔
اس آپریشن پے بہت کھیل کھیلا گیا، سیاسی اور مذہبی بھی۔ کبھی کوئی کہتا ہے ہزاروں مارے گئے، کوئی کہتا ہے فوج نے کلسٹر بم استعمال کیے۔
میری سب پاکستانیوں سے گذارش ہے کہ تنقید سے پہلے حقائق جان لینے چاہیں۔
انسان کو اتنا بھی انتہا پسند نہیں ہونا چاہیے کہ اپنی موت کا تو خود زمہ دار بنے لیکن ساتھ دوسرے ہزاروں کی زندگی بھی تباہ کر دیں۔
اس جنگ میں اسلام بدنام ہوا، دشمن دل سے خوش ہوا ہو گا،
اگر پاکستان کے قانون اپکو نہیں پسند تو ان لیڈرز کو سامنے لائیں جو آپ کی آواز بنیں ۔
اور میری یہ بھی گزارش ہے کی خدارا گورنمنٹ کی رِٹ کو چیلنج کرنا چھوڑ دیں۔ اگر لڑائی کا اتنا شوق ہے تو پولیس یا آرمی میں بھرتی ہو جاہیں۔ اپنے مکروہ اور شددپسند چہرے کو چھپانے کیلیے پاکستان آرمی کو بدنام کرنا چھوڑ دیں، میڈیا اور عسکریت پسندوں کی وجہ سے پہلے ہی آرمی تنگ ہے۔ جو آپ کی حفاظت منفی پچاس ڈگری درجہ حرارت میں بھی کرتے ہیں،
اللہ سب کو سمجھنے کی قوت دے اور پاکستان کو پر سکون بنا دے ۔ آمین
آئندہ اگر کوئی لال مسجد کے نام پر آپ کو فوج کے خلاف نفرت پر اکسائے تو اس کے منہ پر یہ حقائق مار دیجیے گا کیونکہ ایسے جاہلوں کو خود بھی حقائق معلوم نہیں ہوتے، یہ لوگ بھی بس سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور یہ جھوٹی کہانیاں بھی دشمن کے لوگ ہی پھیلاتے ہیں تاکہ مذھبی حلقوں کو یہ باور کروایا جائے کہ پاک فوج کفار کی فوج ہے تاکہ فوج کمزور ہو اور دشمن کو موقع مل سکے کہ پاکستان کو بھی شام و عراق کی طرح تباہ و برباد کردے۔
پلیز شیئر
Subscribe to:
Posts (Atom)
Adam Driver leaves interview 'because he can't stand listening to himself'
Scarlett Johansson and Adam Driver star in Marriage Story Many of us can't bear to listen to or watch recordings of ourselves. But...
-
راولپنڈی(نیوز ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مخالف ریلیوں اور دھرنو ں میں شرکت کا اعلان کردیا۔تفصیلات...
-
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف دفاعی تجزیہ کار زید حامد کو سعودی عرب میں سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر مبینہ طور ...
-
Princess Shaikha Salwa (London, UK) -- Qatar a tiny Persian Gulf Peninsula albeit vastly affluent and notorious for supporting A...