سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے جہاں تنخواہوں کے حوالے سے مسائل ہیں وہیں منشیات کی سمگلنگ اور مختلف دوسرے جرائم کی پاداش میں سعودی جیلوں میں قید سینکڑوں پاکستانی بھی انصاف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے کئی ایسے خاندانوں کے ساتھ لاہور کے پریس کلب کے باہر احتجاج کیا جہاں ایسے افراد کے رشتے دار بڑی تعداد میں موجود تھے جو سعودی عرب میں یا تو قید ہیں یا مختلف مسائل کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔
قصور سے آنے والے ایک بزرگ جن کا بیٹا سعودی عرب میں قید ہے کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا سعودی عرب میں قید ہے اور اسے سکیورٹی گارڈ کی نوکری کا جھانسہ دے کر سعودی عرب لے جایا گیا تھا۔
ان کے بقول اب ان کے کندھوں پر نہ صرف اپنے 12 بچوں کا بوجھ ہے بلکہ اپنے بیٹے کی اولاد بھی انھی کے پاس ہے۔
دوسری جانب فیصل آباد سے آئی ایک خاتون نے روتے ہوئے اپنے شوہر کے بغیر اپنی حالتِ زار بتائی کہ وہ اب دوسروں کے گھروں میں صفائی کر کے اپنے گھر کی کفالت کرتی ہیں۔
انھوں نے بتایا ’ڈیڑھ سال قبل ان کی اپنے شوہر سے بات ہوئی تھی ’ جنھیں ڈرا دھمکا کر منشیات لے جانے پر مجبور کیا گیا‘ اور اب انھیں نہیں پتا کہ وہ زندہ ہیں یا کہاں ہیں۔
ان سب افراد کے بظاہر سعودی عرب جانے کا مقصد ایک ہی تھا کہ وہ اپنے اور اپنے گھر کے افراد کے لیے کچھ کما سکیں اور ان کی زندگی بہتر کر سکیں مگر اب انھیں ان حالات میں یہ اب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
احتجاج پر موجود ایک اور شخص نے اپنی تکلیف کے بارے میں بتایا کہ اب ان کی کوئی خوشی خوشی نہیں انھیں ہر وقت اپنے پیاروں کی یاد ستاتی ہے اور ان کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
جہاں سعودی عرب میں پاکستانیوں کی حالت پر بہت کچھ سننے کو ملا وہیں یہ احتجاج بھی سامنے آیا کہ پاکستانی حکومت اور سفارت خانے کی جانب سے سہولیات اور مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگر وہاں پاکستانی قید میں ہیں تو انھیں رہائی یا رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے کوئی مدد نہیں ملتی اور اگر ان کی تنخواہوں کے مسائل ہیں تو بھی انھیں یہ سب خود ہی حل کرنا پڑتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment