سال ۲۰۱۲ میں ہیلری کلینٹن کا خط ؛
بشار اسد کا تختہ الٹ دو تاکہ اسرائیل محفوظ ہو جائے /علاقے میں شیعہ اور سنی کی جنگ اسرائیل کے فائدے میں ہے
شیعت میڈیا :جن برسوں میں سابقہ ایرانی جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی اور پانچ جمع ایک کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے اس زمانے میں ہیلری کلینٹن کے لکھے گئے ایک خط کے متن کا بھانڈا پھوٹ جانے سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ اسی زمانے میں بشار اسد کا تختہ الٹنا چاہتا تھا اور اس کی نظر میں ایران کی جوہری طاقت کو ختم کرنے کا اصلی راہ حل مذاکرات نہیں تھے ۔
عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ ہیلری کلینٹن کے ایک اور خط کے متن کے افشا ہو جانے سے پتہ چلا ہے کہ سال ۲۰۱۲ میں شام کی اندرونی جھڑپوں کی ابتدا میں ہی وہ اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے بشار اسد کا تختہ الٹنے کی خواہاں تھی ۔
بشار اسد کا تختہ الٹ دیں ،
اس خط کے مضمون کی بنیاد پر کہ جس کو افشا گر سایٹ ویکی لیکس نے منتشر کیا ہے کلینٹن نے شروع میں شام کی اندرونی جھڑپوں کی جانب کہ جنہیں خط لکھے جانے کے وقت یعنی سال ۲۰۱۲کے اوایل میں ایک سال ہوچکا تھا اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ایران کی جوہری توانائی کےبڑھتے ہوئے ہونے کے پیش نظر اسرائیل کی مدد کرنے کا بہترین راستہ بشار اسد کا تختہ الٹنے کے لیے شام کے لوگوں کی حمایت کرنا ہے ۔
شام کی جھڑپوں کے آغاز میں امریکہ نے کچھ عرصے میں شام کے مخالفین کو ہتھیار دیے اور ان کو ٹریننگ دی لیکن بعد میں اچانک پینٹاگون نے اعلان کیا کہ اس پروگرام کے بے سود ہونے کی وجہ سے اس کو روک دیا جائے ۔
جوہری مذاکرات ایران کے جوہری پروگرام کی پیشرفت میں رکاوٹ نہیں بن سکے،
ہیلری کلینٹن نے اس حالت میں کہ جب سعید جلیلی کے پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات استانبول میں تازہ شروع ہوئے تھے اور بغداد والے مذاکرات بھی اس کے بعد ہونے والے تھے امریکہ کے زاویہء نگاہ سے ان مذاکرات کے ماحصل کے بارے میں لکھا ہے ؛ وہ مذاکرات کہ جن کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنا ہے نہ اسرائیل کی سلامتی کی مشکل کو حل کر سکتے ہیں اور نہ ایران کی اس پروگرام کے اصلی مقصد یعنی ایٹمی ہتھیار بنانے کی طاقت کو کم کر سکتے ہیں ۔
کلینٹن نے آگے دعوی کیا ہے کہ مذاکرات ہی ایران پر حملے کے اسرائیل کے ارادے کواور مشرق وسطی میں جنگ چھڑنے کو تاخیر میں ڈالنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ کسی اور کے پاس ایٹم بمب ہو ،
وزیر خارجہ نےایران کے جوہری پروگرام کو لے کر اسرائیل کی تشویش کو بیان کرتے ہوئے اور اس دعوے کی رٹ لگاتے ہوئے کہ اس پروگرام کا مقصد بمب بنانا ہے لکھا ہے : اسرائیل کو اپنے اوپر ایران کی طرف سے ایٹمی حملے کی فکر نہیں ہے بلکہ اسرائیلی رہنماوں کی اصلی پریشانی کہ جس کو وہ بیان نہیں کر سکتے مشرق وسطی میں واحد ایٹمی طاقت کا امتیاز کھو دینے کے بارے میں ہے ۔
اگر ایران کے پاس ایٹم بمب ہو تو اسرائیل حملہ نہیں کرے گا ،
ہیلری کلینٹن نے ایران کے پاس ایٹم بمب ہونے کی خصوصیت کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر ایران ایٹمی ہو جاتا ہے تو شام اور لبنان میں تہران کے اتحادی بے فکری کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کریں گے اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار اسرائیل کے ایران پر حملے کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔
کلینٹن دوبارہ شام کی قانونی حکومت کے برطرف کیے جانے کے بارے میں لکھتی ہے کہ بشار اسد کی برطرفی کا اہم نتیجہ ایران کا اسرائیل کے سب سے بڑے خطرے یعنی حزب اللہ کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے کی صورت میں نکلے گا۔
اگر بشار اسد ہٹ جاتا ہے تو ہم اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے سے روک سکتے ہیں ،
ہیلری کلینٹن کہتی ہے کہ بشار اسد کا ہٹنا اسرائیل کے ایران پر حملے سے بچاو پر منتہی ہو سکتا ہے ۔
امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ نے اس نظریے کی توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام میں لگاتار ترقی اور ایران اور شام کے اسٹریٹیجیک اتحاد کے پیش نظر خطرے کا احساس کر رہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واشنگٹن سے موافقت حاصل کیے بغیر اچانک تہران پر حملہ کر دے ۔ ہیلری کا کہنا ہے کہ بشار اسد کے ہٹ جانے کی صورت میں امریکہ اسرائیل کے ساتھ تل ابیب کے سلامتی کے حساس مسائل پر سمجھوتہ کر سکتا ہے اور ایران پر اسرائیل کے اچانک حملے کو روک سکتا ہے ۔
بشار اسد بیرونی راہ حل کو تسلیم نہیں کرے گا / اس کے خلاف طاقت کا استعمال ہونا چاہیے ،
ہیلری کلینٹن نے امریکہ کی بشار اسد پر حملے کی توجیہ سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور لکھا ہے کہ نہ مخالفین کا خاتمہ ہو گا اور نہ بشار اسد باہر سے ڈکٹیٹ کیے ہوئے راہ حل کو قبول کرے گا ،پس صرف دھمکی یا طاقت کا استعمال ہی اس ڈکٹیٹر یعنی بشار اسد کی رائے کو بدل سکتا ہے ۔
اوباما کی اس زمانے کی وزیر خارجہ نے شام کی فوج کے ٹھکانوں پر امریکہ کی طرف سے ہوائی حملے نہ کیے جانے کے دلایل کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی تین دلیلیں ہیں ؛ ایک شام کے مخالف گروہوں کا متحد نہ ہونا ،دوسری عرب اتحادیہ کی طرف سے اس طرح کی زمینی مداخلت کی درخواست نہ کرنا کہ جیسا کچھ لیبیا میں ہوا تھا ، اور تیسری روس والوں کی مخالفت ،
ہیلری کلینٹن نے شام میں امریکہ کے سامنے کام کرنے کے جو طریقے ہیں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان میں سے ایک طریقہ ترکی اور اردن کی سرزمین پر شام کے مخالفین کو ٹریننگ دینا اور ہتھیار فراہم کرنا ہے ۔
محترمہ وزیر صاحبہ کا بیان کردہ دوسرا طریقہ بین الاقوامی گٹھ بندھن کی طرف سے شام کی فوج کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے کرنا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ روس شام پر حملے کے مقابلے میں کچھ خاص نہیں کر رہا ہے ۔
کلینٹن اس سلسلے میں کہتی ہے ؛ روس کبھی بھی اس طرح کی ذمہ داری کی حمایت نہیں کرے گا لہذا اس کاروائی کو سلامتی کونسل کے ذریعے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ۔
وزیر صاحبہ کا کہنا ہے کہ روس والے مخالفت بھی نہیں کریں گے اور اپنے اس فرضیے کی تائیید میں وہ نیٹو کے کوسوو پر حملے کا ذکر کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس کے باوجود کہ روس والوں کا صربوں کے ساتھ سیاسی اور خاندانی رشتہ تھا لیکن وہ اس حملے کے سلسلے میں صرف شکایت کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکے ۔
ایران پر حملے کے نتائج کے بارے میں ترکی کے فوجی کمانڈروں کی تنبیہ ،
ہیلری نے ایک اور خط میں کہ جو اس نے اوباما کے اس وقت کے مشرق وسطی کے مشاور جیک سالیوان کے نام لکھا ہے کہا ہے کہ ترکی کے کمانڈروں نے انتہائی خصوصی میٹینگوں میں حکومت سے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کی صورت میں اس سے پہلے کہ اسرائیلی ہوائی جہاز اپنے گھونسلوں میں واپس جائیں پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا ۔
ترکی کے سیکیوریٹی کے حکام نے بھی موصولہ اطلاعات کی بنیاد پر مغرب میں اپنے اطلاعاتی رابطوں کے بارے میں کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملہ ہوتے ہی ایران ،لبنان ،شام اور غزہ کی طرف سے ہزاروں میزائل اور راکٹ اسرائیل پر داغے جائیں گے ۔
ہیلری کلینٹن نے اسی طرح مخفی اطلاعات کی بنیاد پر بتایا کہ شام کی فوج اور حزب اللہ کے پاس زمین سے زمین پر مار کرنے والے ۲ لاکھ میزائل ہیں کہ اگر وہ اسرائیل پر حملہ کرنا چاہیں تو صہیونیوں کی فوج اپنا دفاع نہیں کر پائے گی ۔
بشار اسد کا ہٹنا یعنی شیعہ اور سنی کی جنگ / یہ چیز بری نہیں ہے ،
وزیر صاحبہ نے سالیوان کے نام اپنے خط کے ایک اور حصے میں برطانیہ اور فرانس کی اطلاعاتی ایجینسیوں کی تحلیل کی بنیاد پر لکھا ہے ؛ اسرائیلیوں کا عقیدہ ہے کہ شام کی داخلی جنگ کا ایک مثبت پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر بشار اسد ہٹ جائے تو ایران کا اتحادی کم ہو جائے گا اور وہ اکیلا پڑ جائے گا ،بشار اسد کے ہٹنے سے شیعوں اور سنیوں کے درمیان ایک قومی جنگ شروع ہو جائے گی جس میں ایران بھی الجھ جائے گا ،اور ایسا ہونا اسرائیلی کمانڈروں اور مغربی اتحادیوں کی نظر میں برا نہیں ہو گا ۔