پاکستان کے صنعتی مرکز فیصل آباد کے بازاروں میں یوں تو سینکڑوں رکشہ ڈرائیور مل جاتے ہیں لیکن ان میں سے ایک محمد فیاض ماہی 'رکشے والا' انوکھی شخصیت کے مالک ہیں۔
فیاض اپنے لوڈر رکشے پر تاجروں کا کپڑا ہی ایک سے دوسری مارکیٹ میں منتقل نہیں کرتے بلکہ اپنے گاہکوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ان سے جُڑے کرداروں سے بھی ہم آہنگ کرواتے ہیں۔
45 سالہ فیاض رکشہ ڈرائیور ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب ہیں اور اب تک 12 ناولوں سمیت ایک سو سے زائد ڈرامے لکھ چُکے ہیں۔
اُن کے کام کی مقبولیت اس قدر زیادہ ہے کہ اب تک شائع ہونے والے کل 12 میں سے 11 ناول تین تین بار دوبارہ شائع ہو کر بِک چُکے ہیں لیکن مفلسی کا یہ عالم ہے کہ وہ آج بھی وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی کے بالکل پڑوس میں پونے 2 مرلے پر مشتمل کرایے کے مکان میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
فیاض بتاتے ہیں کہ وہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے اور میٹرک کی 40 روپے داخلہ فیس نہ ہونے کے باعث اپنی رسمی تعلیم مڈل سے آگے نہ بڑھا سکے تاہم غربت کو کتابیں پڑھنے کے شوق پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔
"میری تعلیم چُھوٹی تو میں نے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے ریڑھی پر چھلیاں بیچنا شروع کیں۔ چونکہ مجھے کتابوں کا جنون کی حد تک شوق تھا اس لیے میں تھوڑے بہت پیسے جمع کرتا رہا اور ایک دن اس قابل ہو گیا کہ اپنی لائبریری بنا لی اور وہاں بیٹھ کر زندگی کی حقیقتوں کو قلمبند کرنا شروع کر دیا۔"
فیاض کا پہلا ناول 'گھنگھرو اور کشکول' 2005ء میں شائع ہوا جس میں انھوں نے طوائفوں کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں اور ان کے ساتھ ناروا معاشرتی برتاؤ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
اُن کا سفر گھنگھرو اور کشکول سے گیلے پتھر، کاغذ کی کشتی، کانچ کا مسیحا، تاوانِ عشق، عین شین قاف، موم کا کھلونا، ٹھہرے پانی، میرا عشق فرشتوں جیسا، لبیک اے عشق، شیشے کا گھر اور پتھر کے لوگ تک لکھ کر ختم نہیں ہوا بلکہ گُستاخ اکھیاں کے عنوان سے تیرہواں ناول بھی رواں سال کے آخر تک شائع ہو جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اپنی 4 بچیوں کا پیٹ پالنے اور گھر کا ماہانہ 6 ہزار روپے کرایہ ادا کرنے کے لیے رکشہ چلانا اٗن کی مجبوری ہے۔
"کتابوں سے مجھے کمائی نہیں ہوتی۔ یہ پبلیشرز کے لیے نفع بخش کاروبار ہے اور ویسے بھی پڑھنے کے شوقین اب رہ ہی کتنے گئے ہیں؟ پبلیشرز مجھے میرا ناول شائع کرنے کے بعد صرف 25 ہزار روپے دیتے ہیں اور خود لاکھوں روپیہ کماتے ہیں۔"
اُن کے بقول بہت سے لوگوں کو یہ دیکھ اور سُن کر تعجب ہوتا ہے کہ 12 ناولوں کا مصنف ہونے کے باوجود بھی وہ رکشہ کیوں چلاتے ہیں۔
"لوگوں کو کون سمجھائے کہ میری بچیوں کی روٹی رکشے سے کمائے گئے یُومیہ چار سے ساڑھے چار سو روپے سے ہی پکتی ہے۔"
اُنھوں نے بتایا کہ وہ بچپن میں عابد شیر علی کے قریبی دوست بھی رہے ہیں لیکن انھوں نے آج تک اُن کی مفلسی دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
"میں اور عابد اکھٹے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ عابد نے سیاست میں نام کمایا تو میں نے بہت بار درخواست کی کہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کروا دیں لیکن ہر بار ٹرخا دیا گیا۔"
یوں تو فیاض کو اپنے تمام ہی ناول بہت پسند ہیں تاہم 'عین شین قاف' جس کی اب تک لگ بھگ 33 سو کاپیاں فروخت ہو چُکی ہیں کو وہ اپنی بہترین کاوش قرار دیتے ہیں۔
فیصل آباد میں قائم ایجوکیشن یونیورسٹی میں طلباء کو فیاض ماہی کی زندگی بارے درس دیا جاتا ہے۔ تعلیمی میدان میں اُن کی جدوجہد اور محنت سے بھرپور زندگی سبھی کے لیے ایک اعلیٰ مثال ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اُن کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مذکورہ یونیورسٹی میں ایم فل سطح کے طالبِ علم اُن کے کام پر مقالے لکھ رہے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ ادبی میدان میں انھیں اعلی مقام حاصل ہو اور لوگ ان کی زندگي سے سبق حاصل کریں کہ تعلیم جیسے گوہر کو اگر پانے کا ارادہ پُختہ ہو تو سکول جائے بغیر بھی یہ مشکل نہیں ہے۔