سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک پروٹین مالیکیول کی چپچپاہٹ سے پارکنسنز کی بیماری کے ابتدائی مراحل کی تشخیص میں مدد مل سکتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چھوٹے درجے پر کیے جانے والے مطالعے سے درست نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
یہ تحقیق اینلز آف کلینیکل اینڈ ٹرانسلیشنل نیورولوجی میں شائع ہوئی ہے۔
پارکنسنز اور ڈیمینشیا کے بعض مریضوں کے دماغ میں ایک مالیکیول کے لیس دار اور چپچپے گچھے پائے جاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے 38 مریضوں کے حرام مغر سے حاصل شدہ سیال کا ایک انتہائی حساس تکنیک کی مدد سے مشاہدہ کر کے ایک پروٹین مالیکیول کا جائزہ لیا جو الفا سائی نیوکلین کہلاتا ہے۔
یہ مالیکیول صحت مند دماغوں میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن یہ صرف اس صورت میں بیماری کی علامت ظاہر کرتا ہے جب آپس میں چپک کر گچھے بنا لے۔ اس سے دماغی خلیے مناسب طریقے سے کام نہیں کر پاتے۔
ان گچھوں کو لیوی باڈیز کہا جاتا ہے اور یہ پارکسنز کے مریضوں اور ڈیمینشیا کے بعض مریضوں کے دماغوں میں پائے جاتے ہیں۔
تجربات کے دوران تحقیق کاروں نے پارکنسنز کے 20 میں سے 19 نمونوں کی درست نشان دہی کی، جب کہ وہ 15 تندرست افراد کے نمونوں کو بھی پہچاننے میں کامیاب رہے۔
پارکنسنز کی مریضوں کے دماغ میں اعصابی خلیے بتدریج ختم ہوتے جاتے ہیں۔ اس کی علامات میں رعشہ، پٹھوں کی سختی، توازن کی کمی اور ڈپریشن شامل ہیں۔
فی الحال اس مرض کا کوئی درست ٹیسٹ موجود نہیں ہے اور بعض اوقات مرض کی تشخیص پر سالہاسال لگ جاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی ڈاکٹر ایلسن گرین کہتی ہیں کہ یہ تکنیک پہلے ہی میڈ کاؤ ڈیزیز اور دوسری دماغی بیماریوں کی تشخیص کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
’ہمیں امید ہے کہ مزید بہتری کے بعد یہ طریقہ پارکسنز کے مریضوں کی درست تشخیص میں معاون ثابت ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر بروقت تشخیص ہو جائے تو ’ایسے مریضوں کو نئی ادویات دی جا سکتی ہیں جن سے ان کا مرض سست پڑ جائے یا رک جائے۔‘
No comments:
Post a Comment